Surah Baqrah Aayat 277-279
آیات 279 - 277
آیت 277
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ
لفظی ترجمہ
اِنَّ : بیشک | الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے | وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کئے | الصّٰلِحٰتِ : نیک | وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی | الصَّلٰوةَ : نماز | وَاٰتَوُا : اور ادا کی | الزَّكٰوةَ : زکوۃ | لَھُمْ : ان کے لیے | اَجْرُھُمْ : ان کا اجر | عِنْدَ : پاس | رَبِّهِمْ : ان کا رب | وَلَا : اور نہ | خَوْفٌ: کوئی خوف | عَلَيْهِمْ : ان پر | وَلَا : اور نہ | ھُمْ : وہ | يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ترجمہ
ہاں جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اُن کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں
تفسیر
تیسری آیت میں مؤمنین صالحین جو نماز و زکوٰۃ کے پابند ہیں ان کے اجر عظیم اور آخرت کی راحت کا ذکر ہے چونکہ اس سے پہلی آیت میں سود خوروں کے لئے عذاب جہنم اور ان کی ذلت و خواری کا ذکر آیا تھا
قرآن کریم کے عام اسلوب کے مطابق اس کے ساتھ ہی ایمان وعمل کے پابند نماز و زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے ثواب اور درجات آخرت کا ذکر کردیا گیا۔
آیت 278
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ
لفظی ترجمہ
يٰٓاَيُّهَا : اے | الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) | اتَّقُوا : تم ڈرو | اللّٰهَ : اللّه | وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو | مَا : جو | بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے | مِنَ : سے | الرِّبٰٓوا : سود | اِنْ : اگر | كُنْتُمْ : تم ہو | مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
ترجمہ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر واقعی تم ایمان لائے ہو
تفسیر
چوتھی آیت يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ کا خلاصہ یہ ہے کہ سود و ربوٰ کی حرمت نازل ہونے کے بعد جو سود کی بقایا رقمیں کسی کے ذمہ باقی تھیں ان کا لینا دینا بھی حرام کردیا گیا
تشریح اس کی یہ ہے کہ سود کی حرمت نازل ہونے سے پہلے عام عرب میں سود کا رواج پھیلا ہوا تھا آیات متذکرہ سے پہلی آیتوں میں اس کی ممانعت آئی تو حسب عادت تمام مسلمانوں نے سود کے معاملات ترک کردیئے لیکن کچھ لوگوں کے مطالبات سود کی بقایا رقموں کے دوسرے لوگوں پر تھے اسی میں یہ واقعہ پیش آیا کہ بنی ثقیف اور بنی مخزوم کے آپس میں سودی معاملات کا سلسلہ تھا اور بنو ثقیف کے لوگوں کا کچھ مطالبہ بنی مخزوم کی طرف تھا بنو مخزوم مسلمان ہوگئے تو اسلام لانے کے بعد انہوں نے سود کی رقم ادا کرنا جائز نہ سمجھا ادھر بنوثقیف کے لوگوں نے مطالبہ شروع کیا کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر مسلمانوں سے مصالحت کرلی تھی بنومخزوم کے لوگوں نے کہا کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہم اپنی اسلامی کمائی کو سود کی ادائیگی میں خرچ نہ کریں گے
یہ جھگڑا مکہ مکرمہ میں پیش آیا اس وقت مکہ فتح ہوچکا تھا رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مکہ کے امیر حضرت معاذ اور دوسری روایت میں عتاب بن اسید تھے انہوں نے اس جھگڑے کا قضیہ آنحضرت صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بغرض دریافت حکم لکھ بھیجا اس پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سود کے سابقہ معاملات ختم کردئیے جائیں پچھلا سود بھی وصول نہ کیا جائے
یہ اسلامی قانون رائج کیا گیا تو مسلمان تو اس کے پابند تھے ہی جو غیر مسلم قبائل بطور صلح و معاہدہ اسلامی قانون کو قبول کرچکے تھے وہ بھی اس کے پابند ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود جب حجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم نے اس قانون کا اعلان کیا تو اس کا اظہار فرمایا کہ یہ قانون کسی خاص شخص یا قوم یا مسلمانوں کے مالی مفاد کے پیش نظر نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تعمیر اور صلاح و فلاح کے لئے جاری کیا گیا ہے اسی لئے ہم سب سے پہلے مسلمانوں کی بہت بڑی رقم سود جو غیر مسلموں کے ذمہ تھی اس کو چھوڑتے ہیں، تو اب ان کو بھی اپنے بقایا سود کی رقم چھوڑنے میں کوئی عذر نہ ہونا چاہئے۔ چناچہ اس خطبہ میں ارشاد فرمایا
الا ان کل ربا کان فی الجاھلیۃ موضوع عنکم کلہ لکم رؤس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون واول ربا موضوع ربا العباس ابن عبد المطلب کلہ یعنی زمانہ جاہلیت میں جو سودی معامعلات کئے گئے سب کو سود چھوڑ دیا گیا اب ہر شخص کو اصل رقم ملے گی سود کی زائد رقم نہ ملے گی نہ تم زیادتی وصول کرکے کسی پر ظلم کرسکو گے اور نہ کوئی اصل رأس المال میں کمی کرکے تم پر ظلم کرسکے گا اور سب سے پہلے جو سود چھوڑا تھا وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے جس کی بہت بھاری رقمیں غیر مسلموں کے ذمہ بطور سود کے عائد ہوتی تھیں، قرآن مجید کی آیت متذکرہ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ اور بقایا سود چھوڑنے کا حکم مذکور ہے
اس آیت کو شروع اس طرح کیا گیا کہ مسلمانوں کو خطاب کرکے اول اِتَّقُوا اللّٰهَ کا حکم سنایا کہ اللّه تعالیٰ سے ڈرو اس کے بعد اصل مسئلہ کا حکم بتلایا گیا یہ قرآن حکیم کا وہ خاص طرز ہے جس میں وہ دنیا بھر کے قانون کی کتابوں سے ممتاز ہے کہ جب کوئی ایسا قانون بنایا جاتا ہے جس پر عمل کرنے میں لوگوں کو کچھ دشواری معلوم ہو تو اس کے آگے پیچھے خدا تعالیٰ کے سامنے پیشی اعمال کے حساب اور آخرت کے عذاب وثواب کا ذکر کرکے مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں کو اس پر عمل کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے اس کے بعد حکم سنایا جاتا ہے یہاں بھی پیچھے عائد شدہ سود کی رقم کا چھوڑ دینا انسانی طبیعت پر بار ہوسکتا تھا اس لئے پہلے اِتَّقُوا اللّٰهَ فرمایا، اس کے بعد حکم دیا وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا یعنی چھوڑ دو بقایا سود کو۔ آیت کے آخر میں فرمایا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ یعنی اگر تم ایمان والے ہو اس میں اشارہ کردیا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ حکم خداوندی کی اطاعت کی جائے اس کی خلاف ورزی ایمان کے منافی ہے یہ حکم طبائع پر بھاری تھا اس لئے حکم سے پہلے اِتَّقُوا اللّٰهَ اور حکم کے بعد اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ کے ارشادات ملا دئیے گئے۔
آیت 279
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖۚ وَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَـكُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِكُمۡۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَلَا تُظۡلَمُوۡنَ
لفظی ترجمہ
فَاِنْ : پھر اگر | لَّمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ چھوڑو گے | فَاْذَنُوْا : تو خبردار ہوجاؤ | بِحَرْبٍ : جنگ کے لیے | مِّنَ : سے | اللّٰهِ : اللّه | وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول | وَاِنْ : اور اگر | تُبْتُمْ : تم نے توبہ کرلی | فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے | رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ : تمہارے اصل زر | لَا تَظْلِمُوْنَ : نہ تم ظلم کرو | وَلَا تُظْلَمُوْنَ : اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
ترجمہ
لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللّه اور اسکے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اب بھی توبہ کر لو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے
تفسیر
اس کے بعد پانچویں آیت میں اس حکم کی مخالفت کرنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی جس کا مضمون یہ ہے کہ اگر تم نے سود کو نہ چھوڑا تو اللّه تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو یہ وعید شدید ایسی ہے کہ کفر کے سوا اور کسی بڑے سے بڑے گناہ پر قرآن میں ایسی وعید نہیں آئی پھر اس آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا ہے
وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ یعنی اگر تم توبہ کرلو اور آئندہ کے لئے سود کی بقایا رقم چھوڑنے کا عزم کرلو تو تمہیں تمہارے اصل رأس المال مل جائیں گے نہ تم اصل رأس المال سے زائد حاصل کرکے کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ کوئی اصل راس المال میں کمی یا دیر کرکے تم پر ظلم کرنے پائے گا اس میں اصل رأس المال دینے کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ تم توبہ کرلو اور آئندہ کو سود چھوڑنے کا عزم کرلو تب اصل رأس المال ملے گا
اس سے بظاہر اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اگر سود چھوڑنے کا عزم کرکے توبہ نہ کی تو اصل رأس المال بھی نہ ملے گا سو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر مسلمان ہوجانے کے باوجود سود کو حرام ہی نہ سمجھے اس لئے سود چھوڑنے کے لئے توبہ نہیں کرتا تب تو یہ شخص اسلام سے خارج اور مرتد ہوگیا جس کا حکم یہ ہے کہ مرتد کا مال اس کی ملک سے نکل جاتا ہے پھر جو زمانہ اسلام کی کمائی ہے وہ اس کے مسلمان وارثوں کو مل جاتی ہے اور جو کفر کے بعد کی کمائی ہے تو وہ بیت المال میں جمع کردی جاتی ہے اس لئے سود سے توبہ نہ کرنا اگر حلال سمجھنے کی بناء پر ہو تو اس کو اصل راس المال بھی نہ ملے گا اور اگر حلال تو نہیں سمجھتا مگر عملاً باز نہیں آتا اور اس کے ساتھ جتہ بنا کر حکومت اسلامیہ کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ باغی ہے اس کا بھی سب مال ضبط کرکے بیت المال میں امانت رکھا جاتا ہے کہ جب یہ توبہ کرلے تب اس کا مال اس کو واپس دے دیا جائے شاید اس قسم کی جزئیات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بصورت شرط فرمایا گیا
وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ یعنی اگر تم توبہ نہ کرو گے تو تمہارے رأس المال بھی ضبط ہوجائیں گے۔
No comments: