Surah Baqrah Aayat 284-286 Rukoo 40 Completed
آیات 286 - 284
رکوع 40
آیت 284
لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِؕ وَاِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡهُ يُحَاسِبۡكُمۡ بِهِ اللّٰهُؕ فَيَـغۡفِرُ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ
لفظی ترجمہ
لِلّٰهِ : اللّه کے لیے | مَا : جو | فِي : میں | السَّمٰوٰتِ : آسمانوں | وَمَا : اور جو | فِي الْاَرْضِ : زمین میں | وَاِنْ : اور اگر | تُبْدُوْا : تم ظاہر کرو | مَا : جو | فِيْٓ: میں | اَنْفُسِكُمْ : تمہارے دل | اَوْ : یا | تُخْفُوْهُ : تم اسے چھپاؤ | يُحَاسِبْكُمْ : تمہارے حساب لے گا | بِهِ : اس کا | اللّٰهُ : اللّه | فَيَغْفِرُ : پھر بخشدے گا | لِمَنْ : جس کو | يَّشَآءُ : وہ چاہے | وَيُعَذِّبُ : وہ عذاب دے گا | مَنْ : جس کو | يَّشَآءُ : وہ چاہے | وَاللّٰهُ : اور | عَلٰي : پر | كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز | قَدِيْرٌ: قدرت رکھنے والا
ترجمہ
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللّه کا ہے تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ اللّه بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا پھر اسے اختیار ہے جسے چاہے معاف کر دے اور جسے چاہے سزا دے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
تفسیر
اللّه ہی کی ملک میں ہیں سب مخلوقات جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں جیسے خود زمین و آسمان بھی اسی کی ملک میں ہیں اور جب وہ مالک ہیں تو ان کو اپنی مملوکہ اشیاء میں ہر طرح قانون بنانے کا حق ہے اس میں مجال کلام نہ ہونی چاہئے جیسا کہ ایک قانون یہ ہے کہ جو باتیں عقائد فاسدہ یا اخلاق مذمومہ یا گناہوں پر پختہ عزم و ارادہ کی تمہارے نفسوں میں ہیں ان کو اگر تم زبان وجوارح سے ظاہر کرو گے مثلا زبان سے کلمہ کفر کہہ دیا یا اپنے تکبر حسد وغیرہ کا خود اظہار کردیا یا کسی گناہ جس کا قصد تھا اسی کو کر ہی ڈالا یا کہ دل ہی میں پوشیدہ رکھو گے دونوں حالتوں میں حق تعالیٰ تم سے مثل دوسرے معاصی کے ان کا حساب لیں گے پھر حساب لینے کے بعد بجز کفر و شرک کے جس کے لئے بخشنا منظور ہوگا بخش دیں گے اور جس کو سزا دینا منظور ہوگا سزا دیں گے اور اللّه تعالیٰ ہر شے پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں
معارف و مسائل
پہلی آیت میں شہادت کے اظہار کا حکم اور چھپانے کی ممانعت مذکور تھی یہ آیت بھی اسی مضمون کا تکملہ ہے اس میں انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ شہادت کا چھپانا حرام ہے اگر تم نے معاملہ کو جانتے ہوئے چھپایا تو رب علیم وخبیر تم سے اس کا حساب لے گا
حضرت ابن عباس، عکرمہ، شعبی، اور مجاہد سے یہی تفسیر منقول ہے
(قرطبی)
اور عموم الفاظ کے اعتبار سے عام ہے اور تمام اعتقادات عبادات اور معاملات کو شامل ہے حضرت عبداللّه بن عباس رضی اللّه عنہ کا مشہور قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ حق تعالیٰ اپنی مخلوق کے تمام اعمال کا محاسبہ فرمائیں گے وہ عمل بھی جس کو وہ کر گذرے ہیں اور وہ بھی جن کا دل سے پختہ ارادہ کرلیا اور اس کو دل میں چھپا کر رکھا مگر عمل کی نوبت نہیں آئی جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں بروایت حضرت ابن عمر منقول ہے کہ میں نے رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ مومن قیامت کے روز اپنے رب عزوجل وعلیٰ سے قریب کیا جائے گا یہاں تک کہ حق تعالیٰ اس کے ایک ایک گناہ کو یاد دلائیں گے، اور سوال کریں گے کہ تو جانتا ہے کہ تو نے نہ یہ گناہ کیا تھا بندہ مومن اقرار کرے گا حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے دنیا میں بھی تیری پردہ پوشی کی اور تیرا گناہ لوگوں میں ظاہر نہیں ہونے دیا اور میں آج اس کو معاف کرتا ہوں اور حسنات کا اعمالنامہ اس کو دے دیا جائے گا لیکن کفار اور منافقین کے گناہوں کو مجمع عام میں بیان کیا جائے گا
اور ایک حدیث میں ہے کہ اللّه تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے جس میں پوشیدہ چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا اور دلوں کے پوشیدہ راز کھولے جائیں گے اور یہ کہ میرے کاتب اعمال فرشتوں نے تو تمہارے صرف وہ اعمال لکھے ہیں جو ظاہر تھے اور میں ان چیزوں کو بھی جانتا ہوں جن پر فرشتوں کو اطلاع نہیں اور نہ انہوں نے وہ چیزیں تمہارے نامہ اعمال میں لکھی ہیں اور اب وہ سب تمہیں بتلاتا ہوں اور ان پر محاسبہ کرتا ہوں پھر جس کو چاہوں گا بخش دوں گا اور جس کا چاہوں گا عذاب دوں گا پھر مؤمنین کو معاف کردیا جائے گا اور کفار کو عذاب دیا جائے گا
(قرطبی)
یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ حدیث میں رسول کریم صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد ہے ان اللّه تجاوز عن امتی عما حدثت انفسہا مالم یتکلموا او یعملوا بہ
(قرطبی)
اللّه تعالیٰ نے میری امت کو معاف کردیا ہے وہ جو ان کے دل میں خیال آیا جب تک اس کو زبان سے نہ کہا یا عمل نہ کیا ہو
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل کے ارادہ پر کوئی عذاب و عتاب نہیں ہے۔ امام قرطبی نے فرمایا کہ حدیث احکام دنیا کے متعلق ہے، طلاق، عتاق، بیع، ہبہ، وغیرہ محض دل میں ارادہ کرلینے سے منعقد نہیں ہوجاتے جب تک ان کو زبان سے یا عمل سے نہ کیا جائے اور آیت میں جو کچھ مذکور ہے وہ احکام آخرت سے متعلق ہے اس لئے کوئی تعارض نہیں اور دوسرے حضرات علماء نے اس شبہ کا جواب یہ دیا ہے کہ جس حدیث میں دل کی چھپی ہوئی چیزوں کی معافی مذکور ہے اس سے مراد وہ وساوس اور غیر اختیاری خیالات ہیں جو انسان کے دل میں بغیر قصد اور ارادہ کے آجاتے ہیں بلکہ ان کے خلاف کا ارادہ کرنے پر بھی وہ آتے رہتے ہیں ایسے غیر اختیاری خیالات اور وساوس کو اس امت کے لئے حق تعالیٰ نے معاف کردیا ہے اور آیت مذکور میں جس محاسبہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ ارادے اور نیتیں ہیں جو انسان اپنے قصد اور اختیار سے اپنے دل میں جماتا ہے اور اس کے عمل میں لانے کی کوشش بھی کرتا ہے پھر اتفاق سے کچھ موانع پیش آجانے کی بناء پر ان پر عمل نہیں کرسکتا قیامت کے دن ان کا محاسبہ ہوگا پھر حق تعالیٰ جس کو چاہیں اپنے فضل وکرم سے بخش دیں جس کو چاہیں عذاب دیں جیسا کہ مذکورہ حدیث بخاری ومسلم میں گذر چکا ہے۔ اور چونکہ آیت مذکورہ کے ظاہری الفاظ میں دونوں قسم کے خیالات داخل ہیں خواہ اختیاری ہوں یا غیر اختیاری اس لئے جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام کو سخت فکر وغم لاحق ہوگیا کہ اگر غیر اختیاری خیالات و وساوس پر بھی مواخذہ ہونے لگا تو کون نجات پائے گا
صحابہ کرام رضوان اللّه علیہم اجمعین نے اس فکر کو رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا تو آپ نے سب کو یہ تلقین فرمائی کہ جو کچھ حکم ربانی نازل ہوا اس کی تعمیل و اطاعت کا پختہ قصد کرو اور کہو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا یعنی ہم نے حکم سن لیا اور تعمیل کی صحابہ کرام رضوان اللّه علیہم اجمعین نے اس کے مطابق کیا اور اس پر یہ جملہ قرآن کا نازل ہوا لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا یعنی اللّه تعالیٰ کسی شخص کو اس کی قدرت سے زائد تکلیف نہیں دیتا
جس کا حاصل یہ ہے کہ غیر اختیاری وساوس اور خیالات پر مواخذہ نہیں ہوگا اس پر صحابہ کرام رضوان اللّه علیہم اجمعین کا اطمینان ہوگیا
یہ حدیث صحیح مسلم میں بروایت ابن عباس نقل کی گئی ہے
(قرطبی)
یہ پوری آیت آگے آرہی ہے
اور تفسیر مظہری میں ہے کہ انسان پر جو اعمال اللّه تعالیٰ کی طرف سے فرض کئے گئے ہیں یا حرام کئے گئے ہیں وہ کچھ تو ظاہری اعضاء وجوارح سے متعلق ہیں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور تمام معاملات اسی قسم میں داخل ہیں اور کچھ اعمال و احکام وہ بھی ہیں جو انسان کے قلب اور باطن سے تعلق رکھتے ہیں ایمان و اعتقاد کے تمام مسائل تو اسی میں داخل ہیں اور کفر و شرک جو سب سے زیادہ حرام و ناجائز ہیں ان کا تعلق بھی انسان کے قلب سے ہی ہے اخلاق صالحہ تواضع، صبر، قناعت سخاوت وغیرہ اسی طرح اخلاق رذیلہ کبر حسد بغض، حب دنیا حرص وغیرہ یہ سب چیزیں ایک درجہ میں حرام قطعی ہیں ان سب کا تعلق بھی انسان کے اعضاء وجوارح سے نہیں بلکہ دل سے اور باطن سے ہے
اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ جس طرح اعمال ظاہرہ کا حساب قیامت میں لیا جائے گا اسی طرح اعمال باطنہ کا بھی حساب ہوگا، اور خطا پر بھی مواخذہ ہوگا، یہ آیت سورة بقرہ کے اخیر میں لائی گئی اس میں بڑی حکمت ہے کیونکہ سورة بقرہ قرآن کریم کی ایسی بڑی اور مہم سورة جس میں احکام الہیہ کا بہت بڑا آگیا ہے اس سورة میں اصولی اور فروغی معاش ومعاد کے متعلق اہم ہدایات، نماز، زکوٰۃ، روزہ قصاص، حج، جہاد، طہارت، طلاق، عدت، خلع، رضاعت، حرمت شراب، ربا اور قرض، لین دین کے جائز و ناجائز طریقوں کا تفصیلی بیان آگیا ہے اسی لئے حدیث میں اس سورت کا نام سنام القرآن بھی آیا ہے یعنی قرآن کا سب سے بلند حصہ اور تمام احکام کی تعمیل میں سب کی روح اخلاص ہے یعنی کسی کام کو کرنا یا اس سے بچنا دونوں خالص اللّه تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے ہوں ان میں نام و نمود یا دوسری نفسانی اغراض شامل ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ اخلاص کا تعلق انسان کے باطن اور قلب سے ہے سب کی درستی اسی پر موقوف ہے اس لئے سورت کے آخر میں اس آیت کے ذریعہ انسان کو تنبیہ کردی گئی کہ فرائض کی ادائیگی یا محرمات سے پرہیز کے معاملہ میں مخلوق کے سامنے تو حیلہ جوئی کے ذریعہ بھی راہ فرار اختیار کی جاسکتی ہے مگر حق تعالیٰ علیم وخبیر ہے اس سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں اس لئے جو کچھ کرے یہ سمجھ کر کرے کہ رقیب وحفیظ میرے سب ظاہری اور باطنی حالات کو لکھ رہا ہے اور سب کا حساب قیامت کے روز دینا ہے یہی وہ روح ہے جو قرآن کریم انسانوں میں پیدا کرتا ہے کہ ہر قانون کے اول یا آخر میں خوف خدا اور فکر آخرت کا ایسا محافظ ان کے قلوب پر بٹھاتا ہے کہ وہ رات کی اندہیری میں اور خلوتوں میں کسی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہوا ڈرتا ہے
آیت 285
اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مِنۡ رَّبِّهٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓئِكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِهٖ ۚ وَقَالُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا ۖ غُفۡرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيۡكَ الۡمَصِيۡرُ
لفظی ترجمہ
اٰمَنَ : مان لیا | الرَّسُوْلُ : رسول | بِمَآ : جو کچھ | اُنْزِلَ : اترا | اِلَيْهِ : اس کی طرف | مِنْ : سے | رَّبِّهٖ : اس کا رب | وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) | كُلٌّ: سب | اٰمَنَ : ایمان لائے | بِاللّٰهِ : اللّه پر | وَمَلٰٓئِكَتِهٖ : اور اس کے فرشتے | وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابیں | وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول | لَا نُفَرِّقُ : نہیں ہم فرق کرتے | بَيْنَ : درمیان | اَحَدٍ : کسی ایک | مِّنْ رُّسُلِهٖ : اس کے رسول کے | وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا | سَمِعْنَا : ہم نے سنا | وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی | غُفْرَانَكَ : تیری بخشش | رَبَّنَا : ہمارے رب | وَاِلَيْكَ : اور تیری طرف | الْمَصِيْرُ : لوٹ کر جانا
ترجمہ
رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللّه اور اس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللّه کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی مالک ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے
تفسیر
اعتقاد رکھتے ہیں رسول کریم صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم اس چیز کے حق ہونے کا جو ان کے پاس رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے یعنی قرآن اور دوسرے مؤمنین بھی اس کا اعتقاد رکھنا کہا جائے گا سب کے سب رسول بھی اور دوسرے مؤمنین بھی عقیدہ رکھتے ہیں اللّه کے ساتھ کہ وہ موجود ہے اور واحد اور ذات وصفات میں کامل ہے اور اس کے فرشتوں کے ساتھ کہ وہ موجود ہیں اور گناہوں سے پاک ہیں اور مختلف کاموں پر مقرر ہیں اور اس کی کتابوں کے ساتھ کہ اصل میں سب سچی ہیں اور اس کے سب پیغمبروں میں سے کسی میں عقیدہ رکھنے میں تفریق نہیں کرتے کہ کسی کو پیغمبر سمجھیں کسی کو نہ سمجھیں اور ان سب نے یوں کہا کہ ہم نے آپ کا ارشاد سنا اور اس کو خوشی سے مانا ہم آپ سے بخشش چاہتے ہیں اے ہمارے پروردگار اور آپ ہی کی طرف ہم سب کو لوٹنا ہے یعنی ہم نے جو پہلی آیت میں کہا ہے کہ نفوس کی پوشیدہ باتوں پر بھی محاسبہ ہوگا اس سے مراد امور غیر اختیاری نہیں بلکہ صرف امور اختیاریہ ہیں کیونکہ اللّه کسی کو احکام شرعیہ میں مکلف نہیں بناتا یعنی ان امور کو واجب یا حرام نہیں فرماتا مگر اسی کا جو اس کی طاقت اور اختیار میں ہو اس کو ثواب بھی اسی کا ہوتا ہے جو ارادہ سے کرے اور اس پر عذاب بھی اسی کا ہوگا جو ارادہ سے کرے اور جو وسعت سے باہر ہے اس کا مکلف نہیں کیا گیا اور جس کے ساتھ قصد اور ارادہ متعلق نہیں اس کا نہ ثواب ہے نہ عذاب اور وساوس طاقت سے خارج ہیں تو ان کے آنے کو حرام اور ان کے نہ آنے دینے کو واجب نہیں کیا اور نہ ان پر عذاب رکھا اے ہمارے رب ہم پر داروگیر نہ فرمائیے اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں اے ہمارے رب ہماری یہ بھی درخواست ہے کہ ہم پر کوئی سخت حکم نہ بھیجئے جیسے ہم سے پہلے لوگوں پر آپ نے بھیجے تھے اے ہمارے رب اور ہم یہ بھی درخواست کرتے ہیں کہ ہم پر کوئی ایسا بار تکلیف کا دنیا یا آخرت میں نہ ڈالئے جس کی ہم کو سہار نہ ہو اور درگذر کیجئے ہم سے اور بخش دیجئے ہم کو اور رحم کیجئے ہم پر آپ ہمارے کارساز ہیں اور کارساز طرف دار ہوتا ہے سو آپ ہم کو کافر لوگوں پر غالب کیجئے
معارف و مسائل
ان دو آیتوں کے خاص فضائل
یہ سورة بقرہ کی آخری دو آیتیں ہیں احادیث صحیحہ معتبرہ میں ان دو آیتوں کے بڑے بڑے فضائل مذکور ہیں رسول کریم صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے رات کو یہ دو آیتیں پڑھ لیں تو یہ اس کے لئے کافی ہیں
اور ابن عباس کی روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللّه تعالیٰ نے دو آیتیں جنت کے خزائن میں سے نازل فرمائی ہیں جس کو تمام مخلوق کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے خود رحمنٰ نے اپنے ہاتھ سے لکھ دیا تھا جو شخص ان کو عشاء کی نماز کے بعد پڑھ لے تو وہ اس کے لئے قیام اللیل یعنی تہجد کے قائم مقام ہوجاتی ہیں اور مستدرک حاکم اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللّه نے سورة بقرہ کو ان دو آیتوں پر ختم فرمایا ہے جو مجھے اس خزانہ خاص سے عطاء فرمائی ہیں جو عرش کے نیچے ہے اس لئے تم خاص طور پر ان آیتوں کو سیکھو اور اپنی عورتوں اور بچوں کو سکھاؤ اسی لئے حضرت فاروق اعظم اور علی مرتضیٰ نے فرمایا کہ ہمارا خیال یہ ہے کہ کوئی آدمی جس کو کچھ بھی عقل ہو وہ سورة بقرہ کی ان دونوں آیتوں کو پڑھے بغیر نہ سوئے گا ان دونوں آیتوں کی معنوی خصوصیات تو بہت ہیں لیکن ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ سورة بقرہ میں اکثر احکام شرعیہ اجمالاً وتفصیلاً ذکر کردیئے گئے ہیں اعتقادات، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت وغیرہ
آخری دو آیتوں میں پہلی آیت میں اطاعت شعار مؤمنین کی مدح کہ گئی ہے جنہوں نے اللّه جل شانہ کے تمام احکام پر لبیک کہا اور تعمیل کے لئے تیار ہوگئے، اور دوسری آیت میں ایک شبہ کا جواب دیا گیا جو ان دو آیتوں سے پہلی آیت میں صحابہ کرام رضوان اللّه علیہم اجمعین اجمعین کو پیدا ہوگیا تھا اور ساتھ ہی اپنے فضل و رحمت بےحساب کا ذکر فرمایا گیا وہ یہ تھا کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ جو کہ تمہارے دلوں میں ہے تم اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ ہر حال میں اللّه تعالیٰ تم سے اس کا حساب لیں گے آیت کی اصل مراد تو یہ تھی کہ اپنے اختیار و ارادہ سے جو کوئی عمل اپنے دل میں کرو گے اس کا حساب ہوگا غیر اختیاری وسوسہ اور بھول چوک اس میں داخل ہی نہ تھی لیکن الفاظ قرآن بظاہر عام تھے ان کے عموم سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسان کے دل میں غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے گا تو اس کا بھی حساب ہوگا۔ صحابہ کرام یہ سن کر گھبرا اٹھے اور آنحضرت صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللّه اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہم جو کام اپنے ارادہ واختیار سے کرتے ہیں حساب ان ہی اعمال کا ہوگا غیر اختیاری خیالات جو دل میں آجاتے ہیں ان کا حساب نہ ہوگا مگر اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر خیال پر جو دل میں آئے حساب ہوگا اس میں تو عذاب سے نجات پانا سخت دشوار ہے رسول کریم صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو اگرچہ آیت کی صحیح مراد معلوم تھی مگر الفاظ کے عموم کے پیش نظر آپ نے اپنی طرف سے کچھ کہنا پسند نہ فرمایا بلکہ وحی کا انتظار کیا اور صحابہ کرام کو یہ تلقین فرمائی کہ اللّه تعالیٰ کی طرف سے جو حکم آئے خواہ آسان ہو یا دشوار مومن کا یہ کام نہیں کہ اس کے ماننے میں ذرا بھی تامل کرے تم کو چاہیے کہ اللّه تعالیٰ کے تمام احکام سن کر یہ کہو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ یعنی اے ہمارے پروردگار ہم نے آپ کا حکم سنا اور اس کی اطاعت کی اے ہمارے پروردگار اگر حکم کی تعمیل میں ہم سے کوئی کوتاہی یا فرو گذاشت ہوئی ہو تو اس کو معاف فرمادے کیونکہ ہمارا سب کا آپ ہی کی طرف لوٹنا ہے
صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق ایسا ہی کیا اگرچہ ان کے ذہن میں یہ خیال کھٹک رہا تھا کہ بےاختیار دل میں آنے والے خیالات اور وساوس سے بچنا تو سخت دشوار ہے اس پر اللّه تعالیٰ نے یہ سورة بقرہ کی آخری دو آیتیں نازل فرمائیں جن میں سے پہلی آیت میں مسلمانوں کی مدح اور دوسری میں اس آیت کی اصلی تفسیر بتلائی گئی جس میں صحابہ کرام رضوان اللّه علیہم اجمعین کو اشتباہ پیش آیا تھا اب پہلی آیت کے الفاظ دیکھئے
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤ ْمِنُوْنَ كُلٌّ اٰمَنَ باللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ ۣلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ
یعنی ایمان رکھتے ہیں رسول اس چیز پر جو ان کے پاس نازل ہوئی ان کے رب کی طرف سے اس میں تو آنحضرت صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی مدح فرمائی اور اس کی بجائے آپ کا نام مبارک لینے کے لفظ رسول فرما کر آنحضرت صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تشریف کو واضح کردیا اس کے بعد فرمایا والْمُؤ ْمِنُوْنَ یعنی جس طرح آنحضرت محمد صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا اپنی وحی پر ایمان و اعتقاد ہے اس طرح عام مؤمنین کا بھی اعتقاد ہے اور جو طرز بیان اس جملہ میں اختیار فرمایا کہ پہلے پورا جملہ آنحضرت محمد صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے ایمان کے ذکر میں لایا گیا اس کے بعد مؤمنین کے ایمان کا علیحدہ تذکرہ کیا گیا اس میں اشارہ ہے کہ اگرچہ نفس ایمان میں آنحضرت محمد صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم اور سب مسلمان شریک ہیں لیکن درجات ایمان کے اعتبار سے ان دونوں میں بڑا فرق ہے رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا علم مشاہدہ اور سماع کی بناء پر ہے اور دوسرے مسلمانوں کا علم ایمان بالغیب آنحضرت محمد صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی رویت کی بناء پر
اس کے بعد ایمان مجمل کی تفصیل بتلائی جو آنحضرت صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم اور عام مؤمنین میں شریک تھا کہ وہ ایمان تھا اللّه تعالیٰ کے موجود اور ایک ہونے پر اور تمام صفات کاملہ کے ساتھ متصف ہونے پر اور فرشتوں کے موجود ہونے پر اور اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور سب رسولوں کے سچے ہونے پر
اس کے بعد اس کی وضاحت فرمائی کہ اس امت کے مؤمنین پچھلی امتوں کی طرح ایسا نہ کریں گے کہ اللّه کے رسولوں میں باہمی تفرقہ ڈالیں کہ بعض کو نبی مانیں اور بعض کو نہ مانیں جیسے یہود نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مانا مگر خاتم الانبیاء صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو نبی نہ مانا اس امت کی یہ مدح فرمائی کہ یہ اللّه کے کسی رسول کا انکار نہیں کرتے اور پھر صحابہ کرام کے اس جملہ پر ان کی تعریف کی گئی جو انہوں نے رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ وسل) کے ارشاد کے موافق زبان سے کہا تھا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ
آیت 286
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا ؕ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَعَلَيۡهَا مَا اكۡتَسَبَتۡؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِيۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَاۤ اِصۡرًا كَمَا حَمَلۡتَهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚرَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ۚ وَاعۡفُ عَنَّا وَاغۡفِرۡ لَنَا وَارۡحَمۡنَا ۚ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَى الۡقَوۡمِ الۡكٰفِرِيۡنَ
لفظی ترجمہ
لَا يُكَلِّفُ : نہیں تکلیف دیتا | اللّٰهُ : اللّه | نَفْسًا : کسی کو | اِلَّا : مگر | وُسْعَهَا : اس کی گنجائش | لَهَا : اس کے لیے | مَا : جو | كَسَبَتْ : اس نے کمایا | وَعَلَيْهَا : اور اس پر | مَا اكْتَسَبَتْ : جو اس نے کمایا | رَبَّنَا : اے ہمارے رب | لَا تُؤَاخِذْنَآ : تو نہ پکڑ ہمیں | اِنْ : اگر | نَّسِيْنَآ : ہم بھول جائیں | اَوْ : یا | اَخْطَاْنَا : ہم چوکیں | رَبَّنَا : اے ہمارے رب | وَلَا : اور نہ | تَحْمِلْ : ڈال | عَلَيْنَآ : ہم پر | اِصْرًا : بوجھ | كَمَا : جیسے | حَمَلْتَهٗ : تونے ڈالا | عَلَي : پر | الَّذِيْنَ : جو لوگ | مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے | رَبَّنَا : اے ہمارے رب | وَلَا : اور نہ | تُحَمِّلْنَا : ہم سے اٹھوا | مَا : جو | لَا طَاقَةَ : نہ طاقت | لَنَا : ہم کو | بِهٖ : اس کی | وَاعْفُ : اور در گزر کر تو | عَنَّا : ہم سے | وَاغْفِرْ لَنَا : اور بخشدے ہمیں | وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم | اَنْتَ : تو | مَوْلٰىنَا : ہمارا آقا | فَانْصُرْنَا : پس مدد کر ہماری | عَلَي : پر | الْقَوْمِ : قوم | الْكٰفِرِيْنَ : کافر
(جمع)
ترجمہ
اللّه کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے (ایمان لانے والو تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں ان پر گرفت نہ کر مالک ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ ہمارے ساتھ نرمی کر ہم سے در گزر فرما ہم پر رحم کر تو ہمارا مولیٰ ہے کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر
تفسیر
اس کے بعد دوسری آیت میں ایک خاص انداز سے وہ شبہ دور کیا گیا جو پچھلی آیت کے بعض جملوں سے پیداہو سکتا تھا کہ دل میں چھپے ہوئے خیالات پر حساب ہوا تو عذاب سے کیسے بچیں گے۔ ارشاد فرمایا
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا یعنی اللّه تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زائد کام کا حکم نہیں دیتے اس لئے غیر اختیاری طور پر جو خیالات و وسوسے دل میں آجائیں اور پھر ان پر کوئی عمل نہ ہو تو وہ سب اللّه تعالیٰ کے نزدیک معاف ہیں حساب اور مؤ اخذہ صرف ان افعال پر ہوگا جو اختیار اور ارادہ سے کئے جائیں
تفصیل اس کی یہ ہے کہ جس طرح انسان کے اعمال و افعال جو ہاتھ، سر، آنکھ اور زبان وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کو اعمال ظاہرہ کہا جاتا ہے ان کی دو قسمیں ہیں ایک اختیاری جو ارادہ اور اختیار سے کئے جائیں جیسے ارادہ سے بولنا ارادہ سے کسی کو مارنا دوسرے غیر اختیاری جو بلا ارادہ سرزد ہوجائیں جیسے زبان سے کہنا چاہتا تھا کچھ اور نکل گیا کچھ یا رعشہ سے بلا اختیار ہاتھ کی حرکت ہوئی اس سے کسی کو تکلیف پہنچ گئی ان میں سب کو معلوم ہے کہ حساب و کتاب اور جزاء وسزا افعال اختیار یہ کے ساتھ مخصوص ہیں افعال غیر اختیاریہ کا نہ انسان مکلف ہے نہ ان پر اس کو ثواب یا عذاب ہوتا ہے
اسی طرح وہ افعال جن کا تعلق باطن یعنی دل کے ساتھ ہے ان کی بھی دو قسمیں ہیں ایک اختیاری جیسے کفر و شرک کا عقیدہ جس کو قصد واختیار کے ساتھ دل میں جمایا ہے یا سوچ سمجھ کر ارادہ کے ساتھ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا جس کو تکبر کہا جاتا ہے یا پختہ ارادہ کرنا کہ شراب پیوں گا اور دوسرے غیر اختیاری مثلاً بغیر قصد و ارادہ کے دل میں کسی برے خیال کا آجانا ان میں بھی حساب و کتاب اور مؤ اخذہ صرف اختیاری افعال پر ہے غیر اختیاری پر نہیں
اس تفسیر سے جو خود قرآن نے بیان کردی صحابہ کرام رضوان اللّه علیہم اجمعین کو اطمینان ہوگیا کہ غیر اختیاری وساوس و خیالات کا حساب و کتاب اور ان پر عذاب وثواب نہ ہوگا اسی مضمون کو آخر میں اور زیادہ واضح کرنے کے لئے فرمایا ہے لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ یعنی انسان کو ثواب بھی اس کام کا ہوتا ہے جو ارادہ سے کرے اور عذاب بھی اس کام پر ہوتا ہے جو ارادہ سے کرے
اور مراد یہ ہے کہ ابتداءً بلاواسطہ اس عمل کا ثواب یا عذاب ہوگا جو قصد و ارادہ سے کرے کسی ایسے عمل کا ثواب و عذاب بالواسطہ ہوجانا جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا اس کے منافی نہیں، اس سے اس شبہ کا جواب ہوگیا کہ بعض اوقات آدمی کو بلاقصد و ارادہ بھی ثواب یا عذاب ہوتا ہے جیسا کہ قرآن شریف کی دوسری آیات اور بہت سی روایات حدیث سے ثابت ہے کہ جو آدمی کوئی ایسا نیک کام کرے جس سے دوسرے لوگوں کو بھی اس نیکی کی توفیق ہوجائے تو جب تک لوگ یہ نیک کام کرتے رہیں گے اس کا ثواب اس پہلے والے کو بھی ملتا رہے اسی طرح اگر کسی شخص نے کوئی طریقہ گناہ کا جاری کیا تو آئندہ جتنے لوگ اس گناہ میں مبتلا ہوں گے اس کا وبال اس شخص کو بھی پہنچے گا جس نے اول یہ برا طریقہ جاری کیا تھا، اسی طرح روایات حدیث سے ثابت ہے کہ کوئی شخص اپنے عمل کا ثواب دوسرے آدمی کو دینا چاہے تو اس کو یہ ثواب پہنچتا ہے۔ ان سب صورتوں میں بغیر قصد و ارادہ کے انسان کو ثواب یا عذاب ہورہا ہے
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ ظاہر ہے کہ یہ ثواب و عذاب بلاواسطہ اس کو نہیں پہنچا بلکہ دوسرے کے واسطے سے پہنچا ہے اس کے علاوہ جو واسطہ بنا ہے اس میں اس کے اپنے عمل اور اختیار کو بھی دخل ضرور ہے کیونکہ جس شخص نے کسی کا ایجاد کیا ہوا اچھا یا برا طریقہ اختیار کیا اس میں پہلے شخص کے عمل اختیاری کا دخل ضروری ہے اگرچہ اس نے اس خاص اثر کا ارادہ نہ کیا ہو اس طرح کوئی کسی کو ایصال ثواب جبھی کرتا ہے جب اس نے اس پر کوئی احسان کیا ہو اس لحاظ سے یہ دوسرے کے عمل کا ثواب و عذاب بھی درحقیقت اپنے ہی عمل کا ثواب یا عذاب ہے
بالکل اخیر میں قرآن کریم نے مسلمانوں کو ایک خاص دعا کی تلقین فرمائی جس میں بھول چوک اور بلاواسطہ خطاء کسی فعل کے سرزد ہونے کی معافی طلب کی گئی فرمایا رَبَّنَا لَا تُؤ َاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا اے ہمارے پروردگار بھول چوک اور خطاء پر ہم سے مؤ اخذہ نہ فرما پھر فرمایا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَارَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ یعنی اے ہمارے پروردگار ہم پر بھاری اور سخت اعمال کا بوجھ نہ ڈالئے جیسا ہم سے پہلے لوگوں بنی اسرائیل پر ڈالا گیا ہے اور ہم پر ایسے فرائض عائد نہ فرمائیے جن کی ہم طاقت نہیں رکھتے
اس سے مراد وہ سخت اعمال ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد تھے کہ کپڑا پانی سے پاک نہ ہو بلکہ کاٹنا یا جلانا پڑے اور قتل کے بغیر توبہ قبول نہ ہو یا مراد یہ ہے کہ دنیا میں ہم پر عذاب نازل نہ کیا جائے جیسا کہ بنی اسرائیل کے اعمال بد پر کیا گیا اور یہ سب دعائیں حق تعالیٰ نے قبول فرمانے کا اظہار بھی رسول کریم صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ کردیا
سورة بقرہ تمام ہوئی وللّه الحمد اولہ و آخرہ وظاہرہ و باطنہ وہو المستعان
Sight Of Right
No comments: