Nimaz Series By SOR


Lesson 1


 نماز کا بیان 


سوال : اسلام میں نماز کا حکم کیا ہے؟
جواب : نماز لاٙ اِلہٙ اِلّا اٙللّٰہ مُحٙمّٙد رٙسُوْلُ اللّٰہ  کی گواہی دینے کے بعد اسلام کے ارکان میں سب سے بڑا (رکن) ہے اور یہ اسلام کا ستون ہے اللّه تعالی نے قرآن کریم میں بار بار اس کو قائم کرنے کا حکم فرمایا ہے اور یہ مردوں اور عورتوں میں سے ہر بالغ عاقل پر فرض ہے اور جو اس کی فرضیت کا انکار کرے وہ ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے






سوال : کب اولاد کو نماز کا حکم کیا جائے؟

جواب : نبی پاک صلی اللّه علیہ وسلم نے فرمایا " اپنی اولاد کو نماز کا حکم کرو اس حال میں کہ وہ سات برس کی عمر کے ہوں اور ان کو (نماز نہ پڑھنے) پر مارو اس حال میں کہ وہ دس (برس)  کی عمر کے ہوں اور خوابگاہوں میں ان کے درمیان تفریق کرو اور ایک روایت میں ہے کہ "بچے کو نماز سکھاؤ اس حال میں کہ سات سال کی عمر کا ہو اور (نماز نہ پڑھنے) پر اس کو مارو اس حال میں کہ دس (سال) کی عمر کا ہو" اور والد کا اولاد کو نماز کا حکم کرنے میں دیکھ بھال کرنا واجب میں سے ہے


اللّه تعالی شانہ فرماتے ہیں  

وٙاْمُرْ اٙھْلٙکٙ بِالصّٙلٰوْۃِ وٙاصْطٙبِرْ عٙلٙیْھٙا


(طہ ١٣٢)


ترجمہ : اور اپنے متعلقین کو بھی نماز کا حکم کرتے رہیے اور خود بھی اس کے پابند رہیے


نماز کے اوقات اور اول (اوقات) آخری (اوقات) اور مستحب (اوقات)  کا بیان


سوال : ادا (نماز)شب و روز میں کتنی مرتبہ فرض ہوتی ہے؟

جواب : ادا نماز شب و روز میں پانچ اوقات میں پانچ مرتبہ فرض ہوتی ہے اور ان (اوقات)میں سے ہر وقت کی ابتداء اور انتہا ہے


سوال : پانچوں اوقات  اور ان کے اول (اوقات) اور آخری (اوقات) بیان کیجیئے ؟

جواب : اول  نماز ظہر کا وقت حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللّه کے نزدیک اس کی ابتداء زوال آفتاب کے بعد سے ہے اور اس کی انتہا اس وقت ہے جب ہر چیز کا سایہ زوال کے سایہ کے سوا اس (چیز) سے دو گنا ہو جائے اور حضرت ابو یوسف رحمہ اللّه و حضرت محمد رحمہ اللّه فرماتے ہیں کہ (نماز ظہر) کا وقت زوال (آفتاب) کے بعدہر چیز کا سایہ زوال کے سایہ کے علاوہ اس (چیز) کے برابر ہونے تک ہے

دوم  نماز عصر کا وقت,اس کا اول وقت تب ہوتا ہے جب دونوں قولوں کے اختلاف پر ظہر کا وقت نکل جائے اور اس کاآخری وقت آفتاب غروب نہ ہونے تک ہے

سوم نماز مغرب کا وقت, اس کا اول وقت تب ہوتا ہے جب آفتاب غروب ہو جائے اور اس کا آخری وقت شفق غائب نہ ہونے تک ہے

چہارم نماز عشاء کا وقت,اس کا اول وقت تب ہوتا ہے جب شفق غائب ہوجائے اور اس کا آخری وقت فجر ثانی طلوع نہ ہونے تک ہے
پنجم نماز فجر کا وقت, اس کا اول وقت تب ہوتا ہے جب فجر ثانی طلوع ہو جائے اور اس کا آخری وقت طلوع آفتاب نہ ہونے تک ہے 


سوال : شفق کیا ہے؟

جواب : غروب آفتاب کے بعد مغرب کی طرف دیکھئے آپ کو غروب (آفتاب) کے بعد افق (یعنی آسمان کے کنارے)پر سرخی ملے گی اور وہ افق پر تقریبا چالیس منٹ یا زائد (وقت) باقی رہتی ہے اور وہ سرخی تھوڑی تھوڑی کم ہوتی جاتی ہے پس جب یہ سرخی چلی جاتی ہے تو اس افق پر (سرخی) کے پیچھے سفیدی آجاتی ہے اور یہ سرخی پھر اس کے بعد سفیدی ان میں سے ہر ایک پر شفق کا اطلاق ہوتا ہے پس حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللّه سےفرماتے ہیں کہ تحقیق شفق یہاں سفیدی ہی ہے پس جب سفیدی چلی جائے (تو) مغرب کا وقت نکل گیا اور عشاء کا وقت داخل ہو گیا اور آپ رحمہ اللّه کے صاحبین حضرت ابو یوسف و حضرت محمد رحمہما اللّه فرماتے ہیں کہ تحقیق شفق سرخی ہی ہے پس جب سرخی غائب ہو جائے تو مغرب کا وقت چلا گیا اور عشاء کا وقت داخل ہو گیا 


سوال : فجر ثانی کیا ہے؟

جواب : جب رات جانے کے قریب ہو تو آپ کو شرقی افق میں ستون کی مانند طولاً نور ملے گا پس وہ نور فجر اول,صبح کاذب اور فجر مستطیل ہے پھر اس کے پیچھے  اندھیرا  آتا ہے (جو) افق پر چھا جاتا ہے پھر اندھیرے کے بعد عرضاً پھیلنے والا نمودار ہوتا ہے اور اس میں قدرے قدرے اضافہ ہوتا ہے پس یہ بلند ہونے والا نور فجر ثانی اور صبح صادق ہے اور اس کا نام صبح مستنیر اور صبح مستطیر(بھی) رکھا جاتا ہے



سوال : فرض نمازوں میں سے ہر وقت کی رکعتوں کی تعداد بیان کیجیئے؟

جواب : ظہر, عصر اور عشاء کے وقت میں فرض چار رکعت, مغرب میں تین رکعت اور فجر میں دو رکعت ہیں



سوال : کیا ان نمازوں کے ساتھ مذکورہ (رکعتوں) کے علاوہ کوئی اور نماز (مشروع) ہے؟

جواب : مذکورہ (رکعتوں)  کے علاوہ نمازیں مشروع ہیں لیکن وہ فرض نہیں ہیں پس ان میں سے وتر ہے اور وہ واجب ہے اور فرائض اور واجب کے علاوہ سنتیں ہیں حدیث شریف میں جنکی فضیلت وارد ہوئی ہے اوت ہم عنقریب ان کو ذکر کریں گے انشاءاللّه  تعالی



سوال : نماز وتر کا وقت بیان کیجیئے؟

جواب : وتر کا وقت وہ عین عشاء کا وقت ہے مگر یہ کہ ترتیب کے واجب ہونے کی وجہ سے نماز وتر عشاء کے فرض سے پہلے جائز نہیں اور نماز وتر کا آخری وقت فجر ثانی طلوع نہ ہونے تک ہے



سوال : کیا نمازوں کے اوقات میں بعض (اوقات) کو بعض پر فضیلت حاصل ہے؟


جواب : جی ہاں ! اس میں تفصیل ہے اور وہ درج ذیل ہے 

1

  نماز فجر میں اسفار مستحب ہے پس وہ (نماز فجر) میں اسفار میں داخل ہو اور مسنون قرأت کے ساتھ لوٹا سکے اور اس کو اتنا مؤخر نہ کرے کہ طلوع آفتاب میں شک واقع ہو جائے

2

 موسم گرما میں نماز ظہر میں ابراد یعنی تاخیر مستحب ہے اور موسم سرما میں اسکی تعجیل مستحب ہے

3

 موسم گرما اور سرما میں نماز عصر کی تاخیر مستحب ہے جبکہ آفتاب متغیر نہ ہو اور (آفتاب) کا تغیر اس حیثیت سے ہے کہ اگر آپ (آفتاب) کی طرف دیکھیں تو آپ کی آنکھ اس کو دیکھنے سے چکا چوند نہ ہو

موسم گرما اور موسم سرما میں مغرب کی تعجیل مستحب ہے 

تہائی رات تک عشاء کی تاخیر مستحب ہے
 یہ (تفصیل) عام حالات اور عام دنوں میں ہے پس بہر حال جب بادل کا دن ہو تو اس میں عصر اور عشاء کی تعجیل مستحب ہےاور ان کے ماسوا کی تاخیر مستحب ہے

6

جو شخص رات کی نماز (یعنی تہجد) سے مانوس ہو اس کیلیئے مستحب ہے کہ نماز وتر کو رات کے آخر تک مؤخر کرے اگر بیدار ہونے پر اعتماد ہو. اور جسے (بیدار ہونے)  پر اعتماد نہ ہو اور اندیشہ ہو کہ فجر ثانی سے پہلے بیدار نہیں ہوگا تو سونے سے پہلے وتر پڑھ لے



Lesson 2


نماز کی شرطوں کا بیان 


 سوال : نماز کی ان شرطوں کو بیان کیجیئے جو صحت نماز کیلیئے ضروری ہیں؟


جواب : نمازی کیلیئے ضروری ہے کہ وہ


دونوں حدثوں سے پاک جس وقت وہ نماز پڑھے نماز کے شروع سے آخر تک

2  

اور یہ کہ اس کا جسم نجاستوں سے پاک ہو

3  

اور یہ کہ اس کا مصلیٰ (نماز پڑھنے کی جگہ) پاک ہو

4

 اور یہ کہ وہ پاک کپڑا پہنے ہوئے ہو جس کے ساتھ وہ اپنے ننگیز کو چھپائے پس ننگیز کے کھلنے کے ساتھ نماز صحیح نہیں ہوتی جیسا کہ ناپاک کپڑے میں جائز نہیں ہوتی

5  

اور یہ کہ ہر نماز اپنے وقت میں ہو پس وقت داخل 
ہونے سے پہلے (نماز) جائز نہیں ہوتی

6

 اور یہ کہ وہ قبلہ رخ ہو

7 

اور یہ کہ وہ نماز میں ایسی نیت کے ساتھ داخل ہو کہ (نیت) اور تحریمہ میں فصل نہ کرے پس وہ اپنے دل میں یہ حاضر کرے کہ وہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے اور مقتدی کو اس کےساتھ امام کی اقتداء کی نیت (بھی) لازم ہوتی ہے






سوال جس کو پاک کپڑا نہ ملے اور اس کے پاس ایسی چیز نہ ہو جس سے نجاست زائل کرے (تو) وہ کیسے کرے؟

جواب  وہ اس ناپاک کپڑے میں نماز پڑھے اور اسکی نماز اسی طرح صحیح ہے پس وہ (نماز) نہ لوٹائے



سوال  جس کو ا(تنا)کپڑا جس کے ساتھ اپنا ننگیز چھپائے (تو) وہ کیسے نماز پڑھے؟

جواب  اگر وہ کھڑے ہو کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز پڑھے (تو) اسکو یہ (عمل) کفایت کرے گا لیکن اس کیلیئے افضل یہ ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھے رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرے اور ان دونوں سورتوں میں لوگوں کی نظروں سے چھپے



سوال : مرد کیلیئے اس کی ننگیز کی حد کتنی ہے جس کا چھپانا نماز کے جواز کیلیئے ضروری ہے؟

جواب : مرد کا ننگیز ناف کے نیچے سے گھٹنے تک ہے اور گھٹنا ننگیز ہے ناف ننگیز نہیں



سوال : عورت کا ننگیز کیا ہے؟

جواب : عورت جب آزاد ہو تو جواز نماز کیلیئے اس کا ننگیز اس کا تمام بدن ہے. اس کے چہرے, دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے سوا کوئی چیز اس سے مستثنیٰ نہیں. (اور یہ جواز نماز کیلیئے ہے اور ایسے شخص کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں جو اس عورت کا محرم نہیں) اور جو مرد کا ننگیز ہے پس وہ باندی کا ننگیز ہے اور اس میں(باندی)کے پیٹ اور اس کی پشت کا اضافہ کیا جاتا ہے اور اس کے سوا اسکا بدن ننگیز نہیں



سوال : جو (شخص) قبلہ رخ ہونے پر قادر نہ ہو اس وجہ سے کہ وہ درندے یا اس کے علاوہ (کسی)سے خوفزدہ ہو (تو) کیا کرے؟

جواب : جس جہت کی طرف وہ قادر ہو نماز پڑھے



سوال : اگر قبلہ نمازی پر مشتبہ ہو جائے اور وہاں کوئی نہ ہو جس سے وہ قبلہ کے بارے میں پوچھے تو اس کے قبلہ رخ ہونے کا حکم کیا ہے؟

جواب :  اجتہاد کرے اور قبلہ کی جہت میں غور و فکر کرے اور ایسی جہت کی طرف نماز پڑھے کہ اس کا غالب گمان یہ ہو کہ وہ (نماز) کی جہت ہے


  
سوال :  پس اگر اس نے اجتہاد کرتے ہوئے غور و فکر کرتے ہوئے نماز پڑھی اور نماز پڑھنے کے بعد اسے علم ہوا کہ اس نے قبلہ میں غلطی کی تو کیا وہ نماز لوٹائے؟

جواب : (نماز) لوٹانا اس کے ذمے نہیں 



سوال : اور اگر اسے علم ہو اس حال میں کہ وہ نماز میں ہو کہ وہ (قبلہ کے بارے میں)غلطی پر ہے (تو)کیا کرے؟

جواب : وہ نماز میں قبلہ کی طرف گھوم جائے اور (پڑھی ہوئی نماز) پر بنا کرے اور ازسر نو نماز پڑھنا اس کے ذمہ نہیں


فائدہ : جب نمازی مسجد حرام میں موجود ہو تو عین کعبہ کی طرف رخ کرنا ضروری ہے پس بہر حال جو (کعبہ) سے غائب ہو تو اس کا قبلہ جہت کعبہ ہے اگرچہ وہ مکہ(مکرمہ)میں ہو



Lesson 3


نماز کے فرائض کا بیان


سوال  نماز کے فرائض بیان کیجیئے؟

جواب (نماز) کے فرائض چھ ہیں


  تحریمہ
قیام
 قرأت اگرچہ ایک آیت ہو 
 رکوع
 سجدہ
تشہد کی مقدار آخری قعدہ





سوال  فرائض کا حکم کیا ہے؟

جواب  ہر فرض ادا کرنا لازم ہے پس اگر اس نے ان میں سے کسی ایک کو جان بوجھ کر یا بھول کر چھوڑ دیا تو اسکی نماز کفایت نہیں کرے گی اور اس وقت (نماز) کو لوٹانا ضروری ہے اور سجدۂ سہو سے فرض چھوڑنے کی کمی پوری نہیں ہوتی



Lesson 4


نماز کے واجبات کا بیان


سوال  نماز کے واجبات بیان کیجیئے؟

جواب : وہ درج ذیل ہیں


سورۃ فاتحہ کی قرأت

(فاتحہ)
کے ساتھ ایک سورت یا تین آیات کا ملانا

فاتحہ کو سورت پر مقدم کرنا

فرائض کی پہلی دو رکعتوں میں قرأت کو متعین کرنا

 ارکان میں اطمینان 
(یعنی اطمینان سے ارکان نماز ادا کرنا)


پہلا قعدہ
پہلے قعدے میں اور اسی طرح دوسرے قعدہ میں تشہد پڑھنا

لفظ السلام(کہنا) جس وقت نماز سے نکلنے کا ارادہ ہو

 قنوت وتر

عیدین کی زائد تکبیریں

فجر, جمعہ, عیدین, رمضان شریف میں تراویح اور وتر میں اور عشاء کی پہلی دو (رکعتوں) میں امام کا بلند آواز سے قرأت کرنا

ظہر اور عصر میں اور عشاء کی پہلی دو (رکعتوں)  کے بعد والی (رکعتوں) میں امام کا پوشیدہ آواز سے 
قرات کرنا





سوال : واجبات کا حکم کیا ہے؟


جواب : جب وہ دانستہ کوئی واجب چھوڑ دے (تو) نماز کا لوٹانا واجب ہے اور اگر بھول کر واجب چھوڑ دے (تو) سجدۂ سہو 
سے کمی پوری ہو جائے گی


Lesson 5


نماز کے آداب کا بیان 


سوال : نماز کے آداب کیا ہیں ؟ 

جواب : وہ درج ذیل ہیں 

(١)
 تکبیر کے وقت مرد کا اپنی ہتھیلیوں کو آستینوں سے نکالنا 

(٢) 
نمازی کا قیام کی حالت میں اپنے سجدہ کی جگہ کی طرف، رکوع کی حالت میں پشت قدم کی طرف، سجدہ کی حالت میں ناک کے بانسہ کی طرف، جلوس کی حالت میں گود کی طرف اور سلام کہنے کی حالت میں کندھوں کی طرف دیکھنا 

(٣) 
کھانسی دور کرنا جتنی طاقت رکھتا ہو 

(٤) 
جماٸی کے وقت منہ بند کرنا۔ 







   تحریمہ سے سلام تک اداۓ نماز کی کیفیت کا بیان 



سوال : نماز کی ابتدا سے اسکے آخر تک اداۓ نماز کی کیفیت بیان کیجۓ ؟ 

جواب : جب نماز شروع کرنا چاہے (تو) افتتاح کے لیے مد کے بغیر ( مد کے بغیر کا مطلب یہ ہے اللہ اور اکبر کے شروع میں الف کو اور اکبر کے با کو نہ کھینچے ) تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہے اس حال میں کہ کھڑا ہو اور ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانے والا ہو اور تکبیر (تحریمہ) کے بعد اپنے داٸیں ہاتھ کو باٸیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھ دے پھر ثنا۶ پڑھے پس کہے


 سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمدِکَ وَ تَبَارَکَ اسمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَ لا اِ لٰہَ غَیرُکَ

ترجمہ : ” اے اللہ ! آپ پاک ہیں اور سب تعریف آپ کی ہے اور آپ کا نام بابرکت ہے اور آپ کی بزرگی بلند ہے اور آپ کے سوا کوٸ معبود نہیں ۔ 


پھر تَعَوُّذ پڑھے اور اس کے بعد تَسمِیَّہ پڑھے اور ان تینوں ( ثَنا۶، تَعَوُّذ، تَسمِیَّہ ) کو آہستہ کہے اور مقتدی، تعوذ و تسمیہ نہ پڑھے کیونکہ وہ قرا۶ت نہیں کرتا اور فاتحتہ الکتاب پڑھے اور (فاتحہ) سے فارغ ہونے کے بعد آہستہ سے آمین کہے اگرچہ جہری نماز میں ہو اور اس کے بعد ( قرآن پاک میں سے ) جہاں سے چاہے  ایک سورت یا تین آیات پڑھے پس جب قرا۶ت سے فارغ ہو تو رکوع کے لیے جھکتے ہوۓ ہاتھوں کو اٹھاۓ بغیر تکبیر کہے اور اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھے اس حال میں کہ (ہاتھوں کی ) انگلیوں کو کشادہ کرنے والا ہو تاکہ (گھٹنوں) پر گرفت مضبوط ہو اور پنڈلیوں کو کھڑا رکھے اور اپنی پشت کو پھیلاۓ اس حال میں کہ (پشت) کو سرین کے برابر کرنے والا ہو نہ اپنے سر کو اونچا کرنے والا ہو اور نہ نیچے کرنے والا ہو اور رکوع میں تسبیح کہے (یعنی) سُبحاَنَ رَبِّیَ العَظِیمِ تین دفعہ کہے اور یہ (تسبیح) کا ادنٰی (درجہ) ہے پھر سَمِعَ اللَّہُ لِمَن حَمِدَہُ کہتے ہوۓ سر اٹھاۓ اور اس کے متصل بعد رَبَّناَ لَکَ الحَمدُ کہے جبکہ نماز پڑھ رہا اس حال میں کہ وہ منفرد ( یعنی تنہا ) ہو پس بہرحال امام تو وہ تَسمِیع پر اکتفا کرے اور مقتدی تحمید پر اکتفا کرے اور سیدھا کھڑا ہو جاۓ پھر تکبیر کہے اس حال میں کہ سجدہ کیلۓ جھکے پس گھٹنوں، پھر ہاتھوں پھر چہرے کو ہتھیلیوں کے درمیان رکھتے ہوۓ ہاتھوں کی انگلیوں کو ملاتے ہوۓ ان کو قبلہ رخ کرتے ہوۓ سجدہ کرے اور اپنی ناک اور پیشانی پر سجدہ کرے اور بغلوں کو ظاہرکرے پیٹ کو رانوں سے دور رکھے اورقدموں کے سروں کو قبلہ رُخ کرے اور تسبیح کہے پس سُبحَانَ رَبِّیَ الا علٰی تین مرتبہ کہے اور یہ (تسبیح) کا ادنٰی (درجہ) ہے پھر تکبیر کہتے ہوۓ سر اٹھاۓ اور رانوں پر ہاتھوں کو پھیلاتے ہوۓ سیدھا اطمینان سے بیٹھ جاۓ پھر تکبیر کہے اور تین مرتبہ تسبیح کہتے ہوۓ اطمینان سے دوسرا سجدہ کرے پھر زمین پر ہاتھوں سے سہارا لینے اور بیٹھنے کے بغیر قدموں کے پنجوں پر اٹھنے کے وقت تکبیر کہے اور پہلے اپنا سر پھر ہاتھوں پھر گھٹنوں کو اٹھاۓ اور دوسری رکعت کیلۓ کھڑا ہو جاۓ اور یہ پہلی (رکعت) کی طرح ہے اِلّا یہ کہ وہ ہاتھوں کو نہ  اٹھاۓ اور ثنا۶ و تَعَوُّذ نہ پڑھے اور جب دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہو (تو) اپنے باٸیں پاٶں کو بچھاۓ اور اس پر بیٹھ جاۓ اور اپنے داٸیں پاٶں کو کھڑا کرے اس حال میں کہ اسکی انگلیاں قبلہ رخ کرنے والا ہو اور اپنے (ہاتھوں) کی انگلیاں رانوں پر پھیلاتے ہوۓ داٸیں ہاتھ کو داٸیں ران پر اور باٸیں ہاتھ کو باٸیں ران پر رکھے اور حضرت ابن مسعودؓ کا تَشَھُّد پڑھے پس کہے 



اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَ الصَّلَوَاتُ وَ الطَیِّبَاتُ اَلسَّلامُ عَلَیکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ اَلسَّلامُ عَلَینَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ اَشھَدُ أن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللَّہُ وَ أشھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہُ وَرَسُولُہُ 

ترجمہ : ” تمام قولی عبادتیں ، بدنی عبادتیں اور مالی عبادتیں اللہ کیلۓ ہیں۔ اے نبی! آپ پر سلام اللہ کی رحمت اور اسکی برکتیں (نازل) ہوں۔ 
ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام (نازل) ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوٸ معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں 



اور شہادت کے وقت انگوٹھے اور بیچ کی اُنگلی سے حلقہ بناتے ہوۓ، خنصر( ”خنصر“ چھنگلیا۔ ”بنصر“ چھنگلیا اور بیچ کی انگلی کے درمیان کی انگلی) اور بنصر کو بند کرتے ہوۓ داٸیں انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ کرے۔ پس اگر اس نے دو رکعتوں کی ادا کی نیت کی تھی (تو) تشہد کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجے پھر اس (کلام) کے ساتھ دعا کرے جو تنزیل ( قرآن پاک ) یا سنت کے الفاظ کے مشابہ ہو اس (کلام) کے ساتھ نہیں جو لوگوں کے کلام کے مشابہ ہو پھر دو مرتبہ سلام کہے پس اپنی داٸیں جانب اور اسی طرح اپنی باٸیں جانب اَلسَّلامُ عَلَیکُم وَرَحمَةُ اللّٰہِ کہے یہاں تک کہ کندھوں کی طرف دیکھتے ہوۓ اس کے رخسار کی سفیدی دکھاٸی دے اور اس حال میں کہ اپنے سلام میں امام، نمازیوں اور حفاظت کرنے والے فرشتوں کی نیت کرے جو اس کی داٸیں جانب میں اور جو اس کی باٸیں جانب میں ہوں اس کے مطابق جو ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں ۔ پس اگر اس نے تحریمہ کے وقت چار رکعت نماز پڑھنے کی نیت کی تھی تو جس وقت وہ تشہد سے فارغ ہو تو تیسری رکعت کیلۓ کھڑا ہو اور ہاتھوں کو نہ اٹھاۓ اور ثنا۶ و تَعَوُّذ نہ پڑھے پھر (تیسری رکعت) کے دونوں سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد چوتھی (رکعت) کیلۓ کھڑا ہو اور قیام، قرا۶ت ، رکوع اور سجدہ کے ساتھ ان دونوں (رکعتوں) کو مکمل کرے جیسا کہ اس نے پہلی دو رکعتوں کو مکمل کیا اور چوتھی رکعت کے دو سجدوں کے بعد بیٹھ جاۓ جیسا کہ پہلی دو رکعتوں پر بیٹھا اور تشہد، نبی پاکﷺ درود پھر دعا پھر داٸیں جانب اور باٸیں جانب سلام پڑھے جیسا کہ گزر چکا اور اگر تحریمہ کے وقت تین رکعت نماز پڑھنے کی نیت کی تھی تو تیسری رکعت کے دو سجدوں کے بعد بیٹھ جاۓ اور تشہد، نبی کریم ﷺ پر درود ، دعا اور سلام پڑھے۔



سوال: اگر پگڑی کے پیچ یا فالتو کپڑے پر سجدہ کرے تو اس کا حکم کیا ہے؟ 

جواب: اگر (پگڑی کا ) پیچ پیشانی پر ہو اور وہ اسی طرح سجدہ کرلے (تو) سجدہ کراہت (تنزیہی) کے ساتھ جاٸز ہے اور اگر عزر کی وجہ سے ہو تو جواز کراہت کے بغیر ہے۔


Lesson 6


نماز کی سنتوں کا بیان 


سوال : نماز کی سنتوں کو بیان کیجۓ ؟ 

جواب : ان کو یاد کیجۓ جیسا کہ درج ذیل ہیں 

(١)

 تحریمہ کے وقت مرد کا کانوں کے برابر اور عورت کا کندھوں کے برابر دونوں ہاتھوں کو اٹھانا پھر مردوں کا داٸیں (ہاتھ) کو باٸیں (ہاتھ) پر ناف کے نیچے رکھنا۔

 (٢)

 تحریمہ کے بعد ثنا۶۔ 

(٣) 

تَعَوُّذ
 ( اَ عُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ پڑھنا ) 


(٤) 

تَسمِیہ
 ( بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھنا ) 



(٥) 
آمین کہنا


 (٦) 

تسمیع
 ( سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ کہنا ) 

(٧) 

تحمید 
( رَ بَّناَ لَکَ الحَمدُ کہنا )


(٨)

 رکوع ، سجدہ، قیام، قعدہ اور سجدہ سے (سر) اٹھانے کے وقت تکبیر 


(٩) 

رکوع اور سجدہ کی تسبیح


 (١٠)

 رکوع میں ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑنا اس حال میں کہ اپنے (ہاتھوں) کی انگلیاں کھلی رکھے ہوۓ ہو۔ 






(١١)

 دونوں قعدوں میں اور دونوں سجدوں کے درمیان (جلسہ) میں داٸیں (پاٶں) کو کھڑا رکھنے کے ساتھ اپنے باٸیں پاٶں کو بچھانا اور اس پر بیٹھنا 

(١٢) 

شہادت کے وقت اشارہ کرنا

 (١٣)

 قعدہ میں ہاتھوں کو رانوں پر رکھنا 

(١٤)

 فرائض میں پہلی دو (رکعتوں) کے بعد کی (رکعتوں) میں قرا۶ت کرنا اور بہرحال فرائض کے علاوہ (نماز) میں تو یہ (یعنی قرا۶ت) تمام رکعتوں میں لازم ہے 

(١٥) 

اور امام کا تکبیرات، تسمیع 
( سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ )

 اور تسلیم
 ( اَلسَّلامُ عَلَیکُم وَ رَحمَةُ اللّٰہِ ) 

کو بلند آواز سے کہنا 

(١٦)

 آخری تشہد کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجنا

 ( ١٧) 

(درود شریف)
 کے بعد اس (کلام) کے ساتھ دعا کرنا جو قرآن و سنت کے مشابہ ہو 

(١٨)

 دونوں سلاموں میں داٸیں اور باٸیں جانب چہرہ پھیرنا 

(١٩) 

امام کا دونوں سلاموں میں مردوں، حفاظت کرنے والے فرشتوں اور نیک جنوں کی نیت کرنا 


(٢٠) 

مقتدی کا اپنی جہت میں (موجود) اپنے امام کی نیت کرنا اور اگر (مقتدی صف میں امام) کے برابر ہو (تو) دونوں سلاموں میں اس کی نیت کرے

(٢١) 

مقتدی کا ہر طرف سلام کہنے میں مقتدیوں، حفاظت کرنے والے فرشتوں اور نیک جنوں کی نیت کرنا

 (٢٢) 

منفرد (یعنی تنہا نماز پڑھنے والے) کا دونوں سلاموں میں صرف فرشتوں کی نیت کرنا۔


Lesson 7



 مرد اور عورت کی نماز کے درمیان فرق کا بیان 



سوال: یہ جو آپ نے ذکر فرمایا ہے مرد کی نماز یا مرد اور عورت دونوں کی نماز کے طریقہ کا بیان ہے؟

جواب: یہ مرد اور عورت دونوں کی نماز کا طریقہ ہے الّا یہ کہ عورت چند مقامات میں مرد کی مخالفت کرے اور ہم ان کو بیان کرتے ہیں۔

جیسا کہ درج ذیل ہے





1
 وہ (قیام) میں ہاتھوں کو سینے پر رکھے  


2
تکبیر کے وقت ہتھیلیوں کو آستینوں سے نہ نکالے 


3
 ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھائے


4
 رکوع میں انگلیوں کو کشادہ نہ کرے بلکہ ملائے اور گھٹنوں پر اچھی طرح رکھے


5
 رکوع میں کم جھکے اتنا کہ رکوع کی حد کو پہنچ جائے اور اس پر اضافہ نہ کرے


6
 رکوع میں کہنیوں کو پہلوؤں کے ساتھ چپکا دے


7
 سجدے میں پیٹ کو رانوں سے چپکا دے


8
ہر قعدہ میں تورک کی حالت میں بیٹھے اس طور پر
کہ دونوں پاؤں دائیں جانب نکال دے دائیں پنڈلی کو بائیں پنڈلی پر کرے اور زمین پر بیٹھ جائے۔


9
سجدہ میں کلائیوں کو زمین پر رکھے


10
جہر کے مقام میں جہر نہ کرے 


Lesson 8


قرأت کا بیان 


سوال : امام، مقتدی اور منفرد کے لیے قراءت کے احکام بیان کیجئے؟

جواب : درج ذیل مسائل یاد کیجئے۔

1
 مطلق قراءت تمام نمازوں میں فرض ہے


2
 سورۃ الفاتحہ کی قرأت واجب ہے


3
اور اسی طرح (سورۃ الفاتحہ) کے بعد سورت کا تین
آیات کی مقدار واجب ہے اور مطلق قراءت ان دونوں واجبوں میں سے کسی ایک سے ادا ہو جاتی ہے۔

4
 اور اس (حکم) سے فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے کیونکہ ان میں فاتحہ کی قراءت سنت ہے فرض اور واجب نہیں۔

5
فرض کی پہلی دو رکعتوں میں قراءت کو متعین کرنا واجب ہے

6
 فاتحہ کو اس کے بعد کی قراءت پر مقدم کرنا واجب ہے

7
 نمازی فرائض میں پہلی دو رکعتوں کے بعد کی رکعت میں بااختیار ہے اگر چاہے فاتحہ پڑھے اور یہ افضل ہے اور اگر چاہے سُبْحَانَ اللّہِ کہے اور اگر فرائض میں پہلی دو رکعتوں کے بعد کی رکعت میں فاتحہ پر قراءت کا اضافہ کرے تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا

8
 مقتدی امام کے پیچھے قراءت نہ کرے نہ جہری نماز میں اور نہ سری (نماز )میں۔

9
 فجر، جمعہ, عیدین کی دونوں رکعتوں اور دونوں عشاء یعنی مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قراءت کرنا امام پر واجب ہے۔

10
 امام اور منفرد ظہر و عصر کی تمام رکعتوں میں مغرب کی تیسری رکعت اور عشاء کی آخری دو رکعتوں میں پوشیدہ آواز سے قراءت کریں۔

11
 منفرد اس نماز میں پوشیدہ آواز سے قراءت کرنے اور بلند آواز سے قراءت کرنے کے درمیان بااختیار ہے جس نماز میں امام بلند آواز سے قراءت کرتا ہے یعنی منفرد کے لیے دونوں طرح قراءت کرنا جائز ہے

12
 امام اور منفرد کے لیے مسنون ہے کہ فجر و ظہر کی نماز میں طوال مفصل، عصر و عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل کی قراءت کریں اور یہ حکم مقیم کے لیے ہے پس بہرحال مسافر تو وہ اتنی قراءت کرے جو اسے مناسب معلوم ہو





سوال : کیا امام یا منفرد بَسْمَلَهُ اور تَعْوُّذْ بلند آواز سے پڑھے جب بلند آواز سے قراءت کرے؟

جواب : ان کو بلند آواز سے نہ پڑھے بلکہ پوشیدہ پڑھے



سوال : کیا امام اور مقتدی سورۃ الفاتحہ ختم ہونے کے وقت آمین بلند آواز سے کہیں؟

جواب : آمین بلند آواز سے نہ کہیں



سوال : کیا عورت جہری نماز میں بلند آواز سے قراءت کرے جب تنہا نماز پڑھے؟

جواب : بلند آواز سے قراءت نہ کرے بلکہ پوشیدہ آواز سے قرات کرے



سوال : کیا بعض نمازوں میں کسی سورت کی قراءت متعین ہے؟

جواب : کسی نماز میں کسی معین سورت کی قراءت اس حیثیت سے متعین نہیں کہ اس سورت کے علاوہ جائز نہ ہو بلکہ تمام نمازوں میں یا بعض نمازوں میں کسی معین سورت کی قراءت کو اس حیثیت سے اختیار کرنا مکروہ ہے کہ نماز میں اس سورت کے علاوہ سورت نہ پڑھے



سوال : اگر بعض نمازوں میں بعض سورتوں کی قراءت وُجوبًا متعین نہیں تو کیا سنت میں بعض نمازوں میں بعض سورتوں کی قراءت اس حیثیت سے وارد ہوئی ہے کہ اگر  نمازی ان سورتوں کو اختیار کرے تو اس کی وجہ سے ثواب و اجر دیا جائے؟

جواب : جی ہاں ! بعض نمازوں میں بعض سورتوں کی قراءت وارد ہوئی ہے ان سورتوں کو ان نمازوں میں اختیار کرنا اجر و فضل کو ثابت کرتا ہے اور ہم ذیل میں ان میں سے بعض کا ذکر کرتے


1

جمعہ کے دن نماز فجر میں پہلی رکعت میں
 الٓم 
 تَنْزِیْلُ 
(سورۃ السجدہ) 

اور اس کی دوسری رکعت میں
 ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ 
(سورۃ الدھر) 
کی قراءت مسنون ہے


2

 نماز جمعہ کی پہلی رکعت میں سورۃ الجمعۃ کی قراءت اور اس کی دوسری رکعت میں 
اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ 
(سورۃ المنافقون) 
کی قراءت مسنون ہے


3
نماز جمعہ کی پہلی رکعت میں سورۃ سَبِحِ اسْمَ رَبِكَ الْاَعْلَی اور اس کی دوسری رکعت میں 
ھَلْ اَتٰكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ 
کی قراءت مسنون ہے۔


4
 اور عیدین میں بھی ان ہی دو سورتوں 
(یعنی سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیۃ)
 کی قرات مسنون ہے۔


Lesson 9


فوت شدہ ( نمازوں ) کی قضا کا بیان



سوال : جب نمازی سے نماز فوت ہو جائے تو اسے کب قضا کرے؟

جواب : اُسے قضا کرے جب وہ اُسے یاد آئے لیکن ان تین اوقات میں (فوت شدہ) نماز نہ پڑھے جن میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔



سوال : جس سے کئی نمازیں قضا ہو جائیں تو ان کو کیسے قضا کرے؟

جواب : قضا میں ان کی ترتیب قائم رکھے جس طرح وہ اصل میں واجب ہوئی اور یہ (ترتیب) اس کے لیے واجب ہے جو صاحب ترتیب ہو۔






سوال : صاحب ترتیب ہونے کا مطلب کیا ہے؟

جواب  جب چھ سے کم نمازیں اس سے فوت ہو جائیں تو وہ فقہاء کے عرف میں صاحب ترتیب ہے اور صاحب ترتیب پر وقتیہ (نماز) کی ادا  اور فوت شدہ (نمازوں)کی قضا میں ترتیب واجب ہے ، اور اس پر واجب ہے کہ قضا میں فوت شدہ (نمازوں) کی ترتیب قائم رکھے اور وقتیہ کو ان پر مقدم  نہ کرے پس اگر وہ برعکس کرے تو جو نماز وہ پڑھ چکا اس کو لوٹانا اس پر لازم ہے۔ اور ہم اس کے لیے مثال بیان کرتے ہیں۔

ایک شخص صاحب ترتیب جب وہ قضا میں نماز ظہر پڑھنے سے پہلے عصر کو مقدم کرے تو اس پر واجب ہے کہ نمازِ ظہر پڑھے اور نمازِ (عصر) کو لوٹائے یہ فوت شدہ (نمازوں) کے درمیان (ترتیب کی مثال) ہے بہر حال فوت شدہ اور وقتیہ (نمازوں) کے درمیان ترتیب 

پس اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص صاحب ترتیب کو ظہر کے وقت میں فوت شدہ (نماز) یاد تھی پس اس نے فوت شدہ (نماز) سے پہلے نمازِ ظہر پڑھ لی تو اس پر واجب ہے کہ پہلے فوت شدہ نماز پڑھے پھر (نماز) ظہر کو لوٹائے۔



سوال : کیا وتر اور فرض کے درمیان ترتیب واجب ہے؟

جواب  جی ہاں ! وہ واجب ہے پس اگر نماز عشاء سے پہلے نماز وتر پڑھ لی تو نماز عشاء پڑھنے کے بعد وتر کو لوٹانا واجب ہے اور اگر وتر (پڑھنے)  سے (پہلے) سو گیا یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی تو اس پر واجب ہے کہ پہلے وتر قضا کرے پھر فجر ادا کرے پس اگر اس نے برعکس کیا تو نماز فجر کا لوٹانا اس کو لازم ہے۔



سوال : کیا بعض حالات میں ترتیب کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے؟

جواب : جی ہاں ! اس کا وجوب تین اُمور میں سے کسی ایک سے ساقط ہو جاتا ہے۔

(1) 

وتر کے سوا فوت شدہ (نمازوں) کے چھ ہونے سے 

(2) 

فوت شدہ (نماز) بھول جانے سے

 (3)

 وقت کی تنگی سے


پس جب فوت شدہ (نمازیں) چھ ہو جائیں تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ان میں سے جس نماز کو چاہے مقدم کرے اور اسی طرح فوت شدہ (نمازوں) کے یاد ہوتے ہوئے وقتیہ (نماز) کو ادا کرنا اس کے لیے جائز ہے اور اگر فوت شدہ (نماز) بھول گیا اور وقتیہ نماز اس کے وقت میں پڑھ لی پھر فوت شدہ (نماز) اسے یاد آ گئی تو وہ نماز اسکو کفایت کرے گی جو نماز وہ پڑھ چکا اور اس کا لوٹانا واجب نہیں۔ اور اگر وہ طلوع آفتاب سے کچھ پہلے بیدار ہوا اس حال میں کہ اسے یاد تھا کہ عشاء یا وتر کی نماز اس سے فوت ہو گئی ہے  تو تحقیق وہ نماز فجر پڑھے اور آفتاب بلند ہونے کے بعد عشاء اور وتر کی نماز پڑھےاور (نماز) فجر کا لوٹانا اس پر واجب نہیں کیونکہ ترتیب وقت کی تنگی کی وجہ سے ساقط ہو گئی۔




Lesson 10


مفسداتِ نماز کا بیان


سوال : ان افعال و اقوال کو بیان کیجیئے جن سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؟


جواب : بہرِ حال افعال 

(1) 

پس کھانا اور پینا اگرچہ بھول کر ہو

 (2) 

عملِ کثیر

 (3)

 دورانِ نماز دانستہ وضو توڑ دینا

 (4) 

لگاتار تین قدم یا (اس سے) سے زیادہ چلنا

 (5) 

قبلہ سے سینہ پھیر لینا 

 (6) 

بے ہوش ہونا

 (7) 

دیوانہ ہونا

 (8) 

دیکھنے یا احتلام  سے جنبی ہونا 

(9) 

شہوت کے لائق (کم از کم نو سال کی) عورت کا مطلق ، تحریمہ کے اعتبار سے مشترک نماز میں ایک مقام میں کسی حائل کے بغیر (مرد کے) برابر میں ہونا

 (10) 

ننگیز کا کھلا ہوتے ہوئے یا (نماز سے) مانع نجاست کے ہوتے ہوئے (ایک) رکن ادا کرنا

 (11) 

اس طور پر ہنسنا کہ خود کو سنائی دے۔








بہرِ حال اقوال میں سے پس (نماز) کو فاسد کرتا ہے



 (1) 

بولنا اگرچہ ایک کلمہ کے ساتھ (ہو) برابر ہے کہ دانستہ یا بھول کر یا غلطی سے (بولنے) والا ہو


(2) 

کسی کو سلام کہنا


 (3) 

زبان سے سلام کا جواب دینا


 (4)

 اف اف کہنا


 (5) 

 آہ آہ کرنا


 (6) 

اوہ اوہ کرنا 


(7) 

جنت یا جہنم کے ذکر سے نہیں درد یا مصیبت کی وجہ سے رونے کی (آواز) کا بلند ہونا 


(8) 

چھینکنے والے کو اپنے قول یرحمک اللّه ساتھ جواب دینا 


(9) 

اللّه تعالی کے شریک کے بارے میں پوچھنےوالے کو اپنے قول لٙا اِلٰہٙ اِلّٙا اللّٰہُ کے ساتھ جواب دینا 


(10) 

اِنّٙا لِلّٰہِ وٙاِنّٙا اِلٙیْہِ رٙاجِعُوْنٙ پڑھنا جب بری خبر دی جائے


 (11) 

اور اس کا اٙلْحٙمْدُلِلّٰہِ کہنا جب اس کو ایسی خبر دی جائے جو اُسے خوش کر دے


  (12)
 کسی شے پر اپنے قول لٙا اِلٰہٙ اِلّٙا اللّٰہُ یا سُبْحٙانٙ اللّٰہِ کے ساتھ تعجب ظاہر کرنا


 (13)
 ہر ایسی شے جس کے ساتھ جواب یا خطاب کا ارادہ کیا گیا ہو جیسا کہ مخاطب بناتے ہوئے 
یٰیٙحْیٰ خُذِ الْکِتٰبٙ بِقُوّٙة 
اے یحیٰ
 (علیہ السلام ) 
کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لیجیئے


(14) 
اپنے امام کے غیر کو لقمہ دینا 

(15)
 قرات یا تکبیرات میں ایسی غلطی کرنا جو معنی کو فاسد کر دے جیسے تکبیر (اللّه اکبر) میں ہمزہ کو کھینچا۔


 بارہ اختلافی مسائل 


(1) 
اگر مقیم نماز میں پانی دیکھ لے اور اس کے استعمال پر قدرت رکھتا ہو


 (2) 
یا (موزوں پر) مسح کرنے والا ہو اور مسح کی مدت ختم ہو جائے 


(3) 
یا عملِ قلیل سے اپنے موزے اتاردے


 (4) 
یا اُمی ہو (ایک) آیت سیکھ لے


 (5) 
یا ننگا ہو بس
  اُسے کپڑا مل جائے






 (6) 
یا اشارہ سے نماز پڑھنے والا ہو پس رکوع اور سجدہ پر قادر ہو جائے


 (7)
 یا اسے یاد آ جائے کہ جو نماز پڑھ رہا ہے اس نماز سے پہلے اس کے ذمہ (ایک) نماز ہے اور وہ صاحب ترتیب ہو 


(8) 
یا قرات کرنے والا امام بے وضو ہو جائے اور اُمی کو جانشین بنا دے 


(9) 
یا فجر کی نماز میں آفتاب طلوع ہو جائے


 (10)
 یا (نماز) جمعہ میں عصر کا وقت داخل ہو جائے


 (11)
 یا پٹی پر مسح کرنے والا ہو پس وہ (پٹی) زخم اچھا ہونے سے گر جائے


 (12)
 یا وہ مستحاضہ ہو پس اس کا خون ختم ہو جائے 


حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللّه کے قول میں ان (لوگوں) کی نماز باطل ہو جاتی ہے اگرچہ یہ اُمور آخری تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد پیش آئیں اور حضرت ابو یوسف و حضرت محمد رحمہما اللّه فرماتے ہیں کہ ان کی نماز مکمل ہے اگر ان امور میں سے کوئی (امر) نماز کے آخر میں تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد پیش آئے۔


Lesson 11


اوقاتِ مکروہہ کا بیان



سوال : کیا شب وروز میں ایسے اوقات ہیں جن میں نمازی کو نماز سے روکا گیا ہو؟

جواب : جی ہاں ! تین اوقات ایسے ہیں جن میں نمازی کو نماز سے روکا گیا ہے۔

١-طلوع آفتاب کے وقت
٢-غروب آفتاب کے وقت
٣-ظہیرہ( یعنی دن کے آدھا ہونے کی حد میں) قیام آفتاب کے وقت پس وہ ان اوقات میں فرائض،سنتیں اور نوافل نہ پڑھے اور اسی طرح ان میں نماز جنازہ نہ پڑھے اور سجدہ تلاوت نہ کرے۔



سوال : کیا اس ( سلسلہ) میں کوئ ایسی نماز ہے (جو) اس عموم سے مستثنیٰ کی گئ ہو؟

جواب : جی ہاں! ایک نماز ہے جسکی ادا غروب کے وقت میں کراہت کے ساتھ جائز ہے اور یہ اس ( شخص) کیلۓ  ہے جس نے اس سے پہلے اس دن کی عصر کی نماز نہ پڑھی ہو۔پس تحقیق وہ وقت کی کراہت کی وجہ سے اس نماز کو نہ چھوڑے اور تاخیر کی وجہ سے اللّٰه عزوجل سے استغفار کرے اور اس وقت میں اس نماز کے سوا کسی نماز کی ادا جائز نہیں۔




سوال : کیا ان تین اوقات کے سوا ایسے اوقات ہیں جن میں نماز مکروہ ہوتی ہے؟

جی ہاں ! دو وقت ( ایسے ) ہیں جن میں نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے 

١-نماز فجر کے بعد یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہو جاۓ اور ایک نیزے کی مقدار بلند ہو جاۓ۔

٢- نماز عصر کے بعد یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو جاۓ۔







سوال : اگر (کسی) نے نماز فجر کے بعد یا نماز عصر کے بعد کعبہ مُشَرَّفہ کا طواف کیا تو کیا دوگانہ  طواف نماز پڑھ لے؟

جواب : وہ ان دو وقتوں میں دوگانہ طواف نماز بھی نہ پڑھے بلکہ طلوعِ آفتاب کے بعد آفتاب بلند ہونے کا انتظار کرے اور اسی طرح غروبِ آفتاب کا انتظار کرے۔



سوال : اگر کوئی نماز فجر کے بعد اور نماز عصر کے بعد فوت شدہ نمازیں پڑھنا چاہے تو کیا یہ اس کے لیے ( جائز) ہے؟
   جواب : جی ہاں! یہ اس کیلۓ ( جائز) ہے مگر یہ کہ  عصر کے بعد آفتاب زرد ہونے سے پہلے نماز ختم کر دے۔



سوال : اگر( کوئ شخص) ان دو وقتوں میں نماز جنازہ پڑھنا یا سجدہ تلاوت کرنا چاہے تو کیا یہ اس کیلئے ( جائز ) ہے؟

جواب : جی ہاں ! یہ اس کیلئے جائز ہے۔




سوال: اگر ( کسی)  نے طلوع فجر کے بعد  نماز فجر سے پہلے نفل نماز پڑھی توآپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟

جواب : طلوع فجر کے بعد فجر کی دو رکعت سنت سے زیادہ نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے۔



سوال : غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب سے پہلے نفل نماز پڑھنے میں آپکا قول کیا ہے؟ 

جواب : غروب آفتاب کے بعد نفل نماز نہ پڑھے بلکہ نماز مغرب میں جلدی کرے۔


Lesson 12


اذان اور اقامت کا بیان


سوال : سفید شریعت میں اذان کا کیا حکم ہے؟

جواب : اذان پانچوں نمازوں اور جمعہ کیلئے سنت مؤکدہ ہے ان کے ماسوا نمازوں کیلئے نہیں
 پس(اذان) عیدین،سنتوں،نفلوں ،نماز استسقاء اور نماز کسوف کیلئے مشروع نہیں۔



سوال : اذان کے الفاظ کیا ہیں؟

جواب : اللّٰه اَکْبَرُ اللّٰه اَکْبَرُ،اللّٰه اَکْبَرُ اللّٰه اَکْبَرُ، اَشْھَدُ  اَنْ لَّا اِلٰهَ الَّا اللّٰهُ،اَشْھَدُ  اَنْ لَّا اِلٰهَ الَّا اللّٰهُ اَشْھَدُ انَّ مُحَمَّدًا الرَّسُولُ اللّٰه اَشْھَدُ انَّ مُحَمَّدًا الرَّسُولُ اللّٰهحَیَّ عَلَی الصَّلا ۃِحَیَّ عَلَی الصَّلا ۃِحَیَّ عَلَی الْفَلاحِ،حَیَّ عَلَی الْفَلاحِاللّٰه اَکْبَرُ اللّٰه اَکْبَرُ،لَّا اِلٰهَ الَّا اللّٰهُ








سوال : کیا کسی وقت کی اذان میں ان الفاظ پر اضافہ کیا جاتا ہے؟

جواب : جی ہاں ! فجر کی اذان میں حَیَّ عَلَی الْفَلاحِ کے بعد اَلصَّلاۃُ خَیْرٌمِّنَ النَّوْم دو مرتبہ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔




سوال: کیا اذان میں ترجیح ہے؟

ترجیع یہ ہے کہ شہادتین کو  دو دو مرتبہ پست آواز سے پھر دو دو مرتبہ بلند آواز سے پڑھا جاۓ

جواب : حنفیہ کے نزدیک اذان میں ترجیع نہیں ۔




سوال : اقامت کے الفاظ اور اسکا محل بیان کیجیۓ؟

جواب : جب لوگ جماعت کی نماز کیلئے کھڑے ہو جائیں تو 

مؤذن اتنی آواز کے ساتھ اذان کے الفاظ دہراۓ کہ مسجد میں حاضر ہونے والے اسے سن لیں۔ اور وہ ان
( الفاظ)
 میں حَیَّ عَلَی الْفَلاحِ کے بعد  قَد قَامَتِ اَلصَّلاۃُ دو مرتبہ کا اضافہ کرے پس یہی اقامت ہے۔



سوال : کیا ادا کی حیثیت سے اذان اور اقامت کے درمیان فرق ہے؟

جی ہاں ! اذان ٹھہر ٹھہر کر کہے اور اقامت ذرا جلدی کہے۔



سوال : ( اذان اور اقامت) میں قبلہ رخ ہونے کا حکم کیا ہے؟

جواب : دونوں میں قبلہ رخ ہو اور نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وسلّم ( کے مبارک زمانہ) سے لیکر آج تک یہی منقول ہے۔




سوال :  کیا اذان کے وقت بعض کلمات میں اپنے چہرے کو( دائیں بائیں) پھیرے؟

جواب : مؤذن کیلئے مستحب ہے کہ جب حَیَّ عَلَی الصَّلا ۃِ، کہے تو اپنا چہرہ دائیں طرف پھیرے اور جب حَیَّ عَلَی الْفَلاحِ کہے تو اپنا چہرہ بائیں طرف پھیرے۔




سوال : کانوں میں ( شہادت کی) انگلیاں ڈالنے کا کیا حکم ہے؟

جواب : یہ اذان میں سنت ہے نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت بلال رضی اللّٰه عنہ کو اسکا حکم فرمایا کہ یہ ( عمل) آپؓ کی آواز کو زیادہ بلند کرے گا۔




سوال : فوت شدہ نماز کیلئے اذان اور اقامت کا حکم کیا ہے؟

جواب : فوت شدہ ( نماز) کیلئے اذان دے اور اقامت کہے اور اگر اس سے کئ نمازیں فوت ہو جائیں اور وہ ایک وقت میں انکو پڑھنا چاہے   تو پہلی کیلئے اذان دے اور اقامت کہے اور وہ اس کے بعد والی میں با اختیار ہے اگر چاہے ( اذان اور اقامت) دونوں کو جمع کرے اور اگر چاہے اقامت پر اکتفاء کرے۔




سوال : کیا وہ اذان دے اور اقامت کہے اس حال میں کہ وہ بے وضو ہو؟

جواب : مناسب ہے کہ با وضو اذان دے اور اقامت کہے پس اگر اس نے بے وضو اذان دی  تو جائز ہے اور بے وضو اقامت کہنا مکروہ ہے اور اسی طرح اذان دینا مکروہ ہے اس حال میں کہ وہ جنبی یعنی حدث اکبر کے ساتھ محدث ہو۔




سوال : پس اگر وہ اذان دے اور اقامت کہے اس حال میں کہ وہ جنبی ہو تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب : اسکی اذان لوٹائ جاۓ اور اسکی اقامت نہ لوٹائ جاۓ۔




سوال : کیا بچے کی اذان جائز ہے اور اس پر اکتفاء کیا جائے؟

جواب: جی ہاں ! تمیز رکھنے والے عقلمند بچے کی اذان جائز ہے پس جب وہ اذان دے تو اسکی اذان نہ لوٹائ جاۓ۔




سوال : نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے اذان کا حکم کیا ہے؟

جواب : یہ جائز نہیں۔پس اگر (ایسا) کرے ( تو) لوٹاۓ مگر ابو یوسفؒ نے وقت کے داخل ہونے سے پہلے فجر کی اذان کو جائز قرار دیا ہے۔


Lesson 13


مکروہات نماز کا بیان


سوال : ان افعال کو بیان کیجئے جن سے منع کیا گیا ہے اور جن کا کرنا نماز میں مکروہ ہے؟

جواب : نمازی کیلئے مکروہ ہے۔



1
 اپنے کپڑے یا بدن سے کھیلنا

2
کنکریوں کو الٹنا پلٹنا الّا یہ کہ ان پر سجدہ کرنا ممکن نہ ہو تو ایک مرتبہ ان کو ہموار کردے۔

3
انگلیاں چٹخانا یا ان میں تشبیک کرنا یعنی بعض انگلیوں کو بعض میں داخل کرنا۔

4
 تخصر کرنا یعنی کوکھ پر ہاتھ رکھنا 

5
کپڑا لٹکانا یا اس کو سمیٹنا

6
بالوں کو گوندھنا

7
گردن موڑ کر دائیں اور بائیں دیکھنا

8
 کتے کی طرح بیٹھنا 

9
سجدے میں کلائیوں کو زمین پر بچھانا

10
 ہاتھ سے سلام کا جواب دینا

11
 عذر کے بغیر چار زانوں ہوکر بیٹھنا 

12
پیشانی اور ناک سے مٹی پونچھنا

13
 منہ میں ایسی چیز لینا جو قراءت سے روکے

14
اور ہر ایسا فعل مکروہ ہے جو دل کو غافل کرے اور خشوع میں خلل ڈالے






Lesson 14


 جماعت و امامت کا بیان 



سوال : پاکیزہ شریعت میں جماعت کا ثواب اور اس کا مرتبہ بیان کیجئے؟

جواب : جماعت مردوں کے لیے سنت مؤکدہ ہے اور اس کا ثواب بڑا ہے پس تحقیق نبی کریمﷺ نے فرمایا جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے ستائیں درجہ فضیلت رکھتی ہے (حضرت بخاری و حضرت مسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللّه عنہ سے اس کو روایت کیا ہے) اور حضرت ابو الدرداء  رضی اللّه عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّه ﷺ نے فرمایا کہ جو تین آدمی بستی یا جنگل میں ہوں کہ ان میں نمازِ باجماعت قائم نہ کی جائے تو شیطان ان پر مسلط ہوجاتا ہے پس جماعت کو لازم پکڑیئے کیونکہ سوائے اس کے نہیں بھیڑیا ریوڑ سے علیحدہ ہونے والی بکری کو کھا جاتا ہے۔ (حضرت احمد، حضرت ابو داؤد اور حضرت نسائی نے اس کو روایت کیا ہے) اور حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللّه ﷺ  نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے البتہ تحقیق میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ ایندھن کے بارے میں حکم دوں پس ایندھن اکٹھا کیا جائے پھر نماز کے بارے میں حکم دوں تو نماز کے لیے آذان دی جائے پھر کسی شخص کو حکم دوں تو وہ لوگوں کی امامت کرے پھر ان مردوں (کے پیچھے جانے) کا ارادہ کروں جو نماز با جماعت کے لیے نہیں نکلے پس میں ان پر ان کے گھروں کو جلا دوں۔





سوال :  کون امامت کا زیادہ حقدار ہے؟

جواب : لوگوں میں سے امامت کا زیادہ لائق وہ ہے جو ان میں سے سنت یعنی شریعت کے مسائل خصوصاً نماز کے مسائل کا زیادہ عالم ہو اور یہ حضرت ابو حنیفہ کے نزدیک ہے اور حضرت ابو یوسف فرماتے ہیں کہ ان میں سے امامت کے زیادہ لائق وہ ہے جو ان میں سے کتاب اللہ کا اقرأ (اقرأ سے  مراد یہ ہے کہ  قرآن پاک یاد بھی خوب ہو پڑھتا بھی خوب ہو اور انتہائی تجوید سے پڑھتا ہو) ہو پس اگر وہ سب برابر ہوں تو ان میں سے جو زیادہ پرہیز گار ہو پس اگر وہ سب برابر ہوں تو  ان میں سے زیادہ عمر والا ہو۔




سوال : کیا لوگوں میں ایسا بھی ہے جس کی اقتدا مکروہ ہے؟

جواب : جی ہاں! غلام، دیہاتی، فاسق، نابینے (جب کے طہارت میں محتاط نہ ہو) اور ولد الزنا کو (امامت کے لیے) آگے کرنا مکروہ ہے اور اس کے باوجود اگر وہ خود آگے ہوگئے تو نماز ان کے پیچھے جائز ہے۔




سوال : کیا عورتوں کے لئے جائز ہے کہ وہ مساجد میں نماز کی جماعت میں حاضر ہوں؟

جواب : نماز کی جماعتوں میں حاضر ہونا ان کے لیے مکروہ ہے اور ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں پس اگر بڑھیا فجر، مغرب اور عشاء میں حاضر ہو تو حضرت ابو حنیفہ کے نزدیک اس کے لیے جائز ہے بشرطیکہ زیب و زینت کے ساتھ نکلنے والی نہ ہو اور حضرت ابو یوسف و حضرت محمد فرماتے ہیں کہ تمام نمازوں میں حاضر ہونا اس کے لیے جائز ہے۔




سوال : عورتوں کی جماعت کے بارے میں آپ کا قول کیا ہے؟

جواب : یہ ان کے لیے مکروہ ہے پس اگر وہ ایسا کریں تو جو ان کی امامت کرے وہ ان کے درمیان کھڑی ہو ننگوں کی طرح کہ جب وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں تو ان کا امام ان کے درمیان کھڑا ہوتا ہے۔



سوال : جب صرف ایک مقتدی امام کے ساتھ ہو تو امام اسے کہاں کھڑا کرے؟

جواب : امام اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کرے پس اگر وہ ایک سے زیادہ ہو جائیں تو امام ان سے آگے بڑھ جائے۔



سوال : پس اگر ایک عورت بچے ہوں تو کیسے صفوں کی ترتیب بنائی جائے؟

جواب : امام کے پیچھے مردوں پھر بچوں پھر ہیجڑوں پھر عورتوں کی صف بنائی جائے۔



سوال: اقتدا کے احکام بیان کیجئے؟

جواب: اس کی تفصیل درج ذیل ہے



1
فرض پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز جائز ہے جبکہ دونوں ایک ہی فرض نماز پڑھ رہے ہوں پس اگر دونوں ایک دوسرے کے نا موافق ہوں اس طور پر کہ ان میں سے ایک ظہر کی نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرا عصر کی نماز پڑھ رہا ہو یا مثلًا ان میں سے ایک آج کے دن کی ظہر نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرا گزشتہ دن کی ظہر نماز پڑھ رہا ہو تو اقتدا جائز نہیں۔

2
جائز ہے کہ تیمم کرنے والا وضو کرنے والوں کی امامت کرے۔

3
 اور اسی طرح جائز ہے کہ موزوں پر مسح کرنے والا پاؤں دھونے والوں کی امامت کرے۔

4
کھڑا ہونے والے کی نماز اس کے پیچھے جائز ہے جو بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے۔

5
جو رکوع کرے اور سجدہ کرے وہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھے جو اشارہ سے نماز پڑھے۔

6
 نفل پڑھنے والا فرض پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھ لے۔


7
 اس کا عکس جائز نہیں

8
غیر معذور، معذور کے پیچھے نماز نہ پڑھے مثلاً ایک مرد ہے کہ اس کو بار بار پیشاب آئے یا ہوا خارج ہونے کی بیماری یا ایسا زخم  ہے کہ بھرتا نہیں ہس حقیقی پاک تندرست شخص اس کے پیچھے نماز نہ پڑھے۔

9
 پاک عورت مستحاضہ کے پیچھے نہ پڑھے

10
 قاری، اُمّی کے پیچھے نہ پڑھے۔
 قاری وہ ہے جو قرآن پاک کی ایک آیت کی قراءت پر قدرت رکھتا ہو اور اُمّی وہ ہے جو فرض قراءت پر قدرت نہیں رکھتا

11
کپڑا پہننے والا ننگے کے پیچھے نماز نہ پڑھے




سوال : جس نے امام کی اقتداء کی پھر اسے علم ہوا کہ امام پاکی پر نہیں تھا تو کیا کرے؟

جواب : نماز لوٹائے



Lesson 15


فرض نماز پانے کا بیان


سوال : اگر کسی نے ظہر یا عشاء کی نماز ایک رکعت تنہا نماز پڑھی اور اسے سجدہ کے ساتھ مقید کر لیا پھر نماز با جماعت قائم کی گئی تو وہ کیا کرے؟

جواب :  اس کے ساتھ دوسری رکعت ملائے پھر سلام پھیر دے اور امام کے ساتھ جماعت میں داخل ہوجائے۔



سوال: اگر اس نے اس کو سجدہ کے ساتھ مقید نہ کیا ہو؟

جواب: اس کو توڑ دے اور امام کے ساتھ شروع ہو جائے۔





سوال:  پس اگر کسی نے ظہر یا عشاء کی تین رکعت نماز پڑھی اور تیسری رکعت کو سجدہ کے ساتھ مقید کر لیا پھر نماز با جماعت قائم کی گئی تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب: اپنی نماز مکمل کرے پھر نفل پڑھتے ہوئے امام کی اقتدا کرے۔



سوال: اگر اس نے تیسری رکعت کو سجدہ کے ساتھ مقید نا کیا ہو تو کیسے کرے؟

جواب: جو نماز پڑھ چکا  اسے توڑ دے اور امام کے ساتھ نماز میں داخل ہو جائے۔



سوال: نماز کیسے توڑے؟

جواب: وہ بااختیار ہے اگر چاہے قعدہ کی طرف لوٹ آئے اور ایک سلام پھیر دے اور اگر چاہے کھڑے کھڑے امام کی نماز میں داخل ہونے کی نیت کرتے ہوئے تکبیر کہے اور اس سے دونوں امر حاصل ہوجائیں گے یعنی اس نماز کو توڑنا وہ جو نماز پڑھ رہا تھا اور امام کی نماز میں داخل ہونا۔



سوال: رباعی فرض میں سے نماز عصر کا حکم باقی رہ گیا پس اسے بیان کیجئے؟

جواب : نماز عصر کا حکم اس صورت میں جب ایک رکعت یا تین رکعتیں تنہا نماز پڑھ چکا ہو پھر نماز باجماعت کی گئی ہو ظہر و عشاء کی نماز مکمل کرنے یا توڑنے کے مثل ہے جو ہم ذکر کر چکے ہیں الّا یہ کہ چار رکعتیں مکمل کرنے کے بعد امام کی نماز میں داخل نہ ہو اور یہ ممانعت عصر کے بعد نفل پڑھنے کی کراہت کی وجہ سے ہے۔



سوال:  اگر کسی نے فجر یا مغرب کے فرض میں سے ایک رکعت یا دو رکعتیں تنہا نماز پڑھ لی پھر نماز باجماعت قائم کی گئی تو کیسے کرے؟

جواب: اگر فجر یا مغرب کی ایک رکعت نماز پڑھی پس جماعت کی نماز قائم کی گئی تو جو نماز پڑھ چکا اسے توڑ دے سے سجدہ کے ساتھ مقید کیا ہو یا نہیں اور اسی طرح جو نماز پڑھ چکا اس کو توڑ دے جب کہ اس نماز کی دوسری رکعت کو سجدہ کے ساتھ مقید نہ کیا ہو اور ان تینوں صورتوں میں امام کی نماز میں داخل ہو جائے پس بہرحال جب اس نماز کی دوسری رکعت کو سجدہ کے ساتھ مقید کر لے تو اپنی نماز مکمل کرے اور اسے توڑے نہیں۔




سوال: پس کیا اپنی نماز مکمل کرنے کے بعد امام کی نماز میں داخل ہو جائے؟

جواب: اس صورت میں امام کی نماز میں داخل نہ ہو۔



سوال: ایک شخص نے ظہر یا جمعہ سے پہلے نماز سنت شروع کی پھر اقامت کہی گئی یا خطیب نے خطبہ دیا تو وہ کیسے کرے؟

جواب: دو رکعتوں کے سرے پہ سلامِ پھیر دے پھر ظہر میں امام کی نماز میں داخل ہو جائے اور جمعہ میں خطبہ غور سے سننے میں مشغول ہو جائے۔



سوال: پس اگر نفل شروع کر چکا تھا پھر نماز باجماعت قائم کی گئی تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب: اگر نفل شروع کر دیے پھر فرض نماز باجماعت قائم کی گئی تو اس دوگانہ کو مکمل کرے جس میں وہ مشغول ہے اور اس پر اضافہ نہ کرے۔



سوال: ایک شخص فجر کی نماز امام تک پہنچا اس حال میں کہ اس نے فجر کا دوگانہ نہیں پڑھا تھا تو کیسے کرے؟

جواب: اگر اسے اندیشہ ہو کہ ایک رکعت اس سے فوت ہو جائے گی اور دوسری رکعت پا لے گا تو مسجد کے دروازے کے پاس فجر کا دوگانہ پڑھ لے پھر امام کی نماز میں داخل ہو جائے اور اگر دونوں رکعتوں کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز سنت چھوڑ دے اور امام کے ساتھ داخل ہو جائے۔



سوال: کسی نمازی سے فجر کی نماز فوت ہوگئی اور اس نے چاہا کہ طلوع آفتاب کے بعد قضا کے طور پر اسے پڑھے تو کیا فرض کے ساتھ سنت قضا کرے یا اس پر اکتفا کرے جو فرض ہے؟

جواب: جب اس دن زوال سے پہلے فرض قضا کرنا چاہے تو فرض کی اتباع میں نماز سنت قضا کرے پس جب آفتاب ڈھل جائے تو تحقیق صرف قضا کرے۔



سوال: اور اگر فرض نماز وقت کے اندر پڑھ لی اور امام کی نماز میں داخل ہونے کی وجہ سے یا وقت کی تنگی کی وجہ سے فجر کی دو رکعت سنت نماز نہیں پڑھی تو کب فجر کی سنت قضا کرے؟

جواب: حضرت ابو حنیفہ اور حضرت ابو یوسف کے نزدیک اس صورت میں طلوع آفتاب سے پہلے اور نہ ہی طلوع آفتاب کے بعد اسے قضا کرے اور حضرت محمد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے زیادہ پسند ہے کہ طلوع آفتاب سے زوال تک اسے قضا کر لیا جائے۔



سوال: جب فرض سے پہلے ظہر کی سنت فوت ہوجائے تو کب اسے قضا کرے؟

جواب: ظہر ادا کرنے کے بعد وقت میں اسے قضا کرے اور جب وقت نکل جائے تو اس کی قضا نہیں۔



سوال: جب فرض کرنے کے بعد ظہر سے پہلے والی سنت قضا کرنا چاہے تو ان چار سنتوں کو مقدم کرے یا ان دو سنتوں کو جو فرض کے بعد پڑھی جاتی ہیں؟

جواب: بعد والی سنتوں کو مقدم کرے پس پہلے ان کو پڑھے پھر ان چار کو قضا کرے جو فرض سے پہلے فوت ہوگئیں۔



سوال: جس سے جمعہ سے پہلے والی سنت فوت ہو جائے تو کیا نماز جمعہ کے بعد اسے قضا کرے؟

جواب: نماز جمعہ کے بعد اسے قضا کرے اور اس کا حکم ظہر سے پہلے کی چار سنتوں کے حکم کی طرح ہے ۔


Lesson 16


 نماز میں حَدث کا بیان 


سوال : اگر حدث نمازی کو دوران نماز پیش آ جائے تو کیا کرے؟

جواب : اپنی نماز سے لوٹ جائے اور وضو کرے اور جو نماز پڑھ چکا اس پر بنا کرے اور از سر نو شروع کرنا افضل ہے۔



سوال : اگر امام ہو تو نمازیوں سے کیسے کرے؟

جواب : اگر امام ہو تو مقتدیوں میں سے کسی ایک کو اپنا جانشین بنائے اور اس کا جانشین  (مقتدیوں) کو وہ نماز مکمل کرائے جو باقی رہ گئی۔



سوال : اگر جانشین مسبوق ہو تو؟

جواب : وہ مقتدیوں کو وہ نماز پڑھائے جو باقی رہ گئی پھر  مُدرِک کو جانشین بنائے اور مُدرِک وہ ہے جس نے نماز کو نماز کی ابتداء سے امام کے ساتھ پایا ہو۔ پس وہ (مقتدیوں) کے ساتھ سلام پھیرے۔






سوال : اگر حدث نمازی کو اُس تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد پیش آیا ہے جس میں سلام پھیرنا ہے تو کیسے کرے؟

جواب : نماز سے لوٹ جائے اور وضو کرے اور سلام 
پھیرے۔



سوال : اگر حدث کے بعد بات کہی تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب : اس کی نماز فاسد ہو گئی اور جو نماز وہ پڑھ چکا اس پر بنا اس کے لیے جائز نہیں برابر ہے کہ دانستہ یا بھول کر یا غلطی سے بات کہی ہو۔



سوال : اگر یہ نمازی وضو کی جگہ تک چلنے کا محتاج ہو یا اس کی وجہ سے قبلہ سے پھر جائے تو کیا اس کی نماز فاسد ہو جائے گی؟


جواب : یہ اُسے معاف کر دیا گیا ہے ۔ اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی اگرچہ تین قدم یا زیادہ چلا ہو۔



سوال :  اگر نمازی کو حدث اکبر لاحق ہو جائے تو کیا بنا کرنا اس کے لیے جائز ہے

جواب : جو نماز میں سو گیا پس احتلام ہو گیا یا بیہوش ہو گیا یا اس نے نماز میں قہقہ لگایا تو اس کی نماز فاسد ہو گئی اور اس نماز پر بنا کرنا اس کے لیے جائز نہیں۔ پس وہ پہلی صورت میں غسل کرنے کے بعد اور باقی تین صورتوں میں وضو کرنے کے بعد از سر نو نماز پڑھے۔


Lesson 17

سجدہ سہو کا بیان



سوال  : جب نمازی نماز میں بھول جائے تو کیا کرے؟

جواب : اگر نمازی نماز میں بھول جائے پس نماز کی جنس میں سے کسی فعل کا اضافہ کرے مثلا نماز کا رکوع مکرر کرے یا رکعت کا اضافہ کرے یا واجب فعل کی کمی کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلا جب وہ فاتحتہ الکتاب یا اس کے بعد کی سورت کی قراءت چھوڑ دے یا پہلا قعدہ یا دونوں تشہدوں میں سے ایک کو چھوڑ دے یا وتر میں قنوت یا عیدین کی تکبیرات چھوڑ دے  یا امام اس نماز میں بلند آواز میں قراءت کرے جس میں پوشیدہ آواز میں قراءت کی جاتی ہے یا اس نماز میں پوشیدہ قراءت کرے جس میں بلند آواز میں قراءت کی جاتی ہے تو مذکورہ بالا صورتوں میں آخری تشہد میں دائیں جانب سلام پھیرے پھر سہو کے دو سجدے  کرے پھر دوسری مرتبہ تشہد پڑھے اور دونوں جانب سلام پھیرے۔



سوال : کیا امام کے بھولنے سے قوم پر سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے؟

جواب : امام کا بھولنا امام اور مقتدی دونوں پر سجدہ کو واجب کرتا ہے۔





سوال : اگر امام سجدہ نہ کرے تو مقتدی کیا کرے؟

جواب : اگر امام سجدہ نہ کرے تو مقتدی بھی سجدہ نہ کرے۔



سوال : اگر مقتدی بھول جائے تو سجدہ سہو اس کو لازم ہوتا ہے 

جواب : سجدہ اس کو اور نہ ہی اس کے امام کو لازم ہوتا ہے۔



سوال : جو شخص رباعی یا ثلاثی نماز میں پہلا قعدہ بھول گیا پھر اُسے  یاد آیا تو کیسے کرے؟

جواب : اپنی ہیئت دیکھے۔ اگر بیٹھنے کی ہیئت کے زیادہ قریب ہو تو بیٹھنے کی طرف لوٹ آئے اور تشہد پڑھے اور اپنی باقی نماز مکمل کرے اور سجدہ سہو اس پر نہیں اور اگر کھڑا ہونے کی ہیئت کے زیادہ قریب ہو تو نہ لوٹے اور اپنی نماز جاری رکھے اور آخری تشہد کے بعد سجدہ سہو کرے اور سلام پھیر دے۔



سوال : اگر آخری قعدہ بھول جائے تو کیا کرے ؟

جواب : اگر رباعی نماز میں آخری قعدہ بھول جائے پس پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے تو قعدہ کی طرف لوٹ آئے جب تک کہ سجدہ نہ کیا ہو اور پانچویں رکعت چھوڑ دے اور سجدہ سہو کرے۔



سوال : اگر پانچویں رکعت کو سجدہ کے ساتھ مقید کر لے تو کیسے کرے؟

جواب : اس صورت میں اس کی فرض نماز باطل ہو گئی کیونکہ اس نے فرض یعنی آخری قعدہ چھوڑ دیا اور اس کی نماز نفل بن گئی اور اس کے ساتھ چھٹی رکعت ملا لے۔

فائدہ : اسی پر اس کو قیاس کر لیجیئے جب وہ ثنائی یا ثلاثی نماز میں آخری قعدہ بھول جائے



سوال : اگر چوتھی رکعت میں بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے پھر یہ خیال کرتے ہوئے کھڑا ہو گیا کہ یہ دوسری رکعت ہے پھر یاد آ گیا تو کیسے کرے؟

جواب : بیٹھنے کی طرف لوٹ آئے جب تک کہ پانچویں رکعت کے لیے سجدہ نہ کیا ہو اور سجدہ سہو کرے اور اس کی نماز صحیح ہے۔



سوال : اگر پانچویں رکعت کو سہدہ کے ساتھ  مقید کر لے تو کیا کرے؟

جواب : اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے اور سہو کرے اور تحقیق اس کی نماز یعنی چار رکعتیں مکمل ہو گئی جس کی اس نے تحریمہ کہی اور وہ زائد رکعتیں اس کے لیے حل ہیں۔



سوال : جو نماز میں شک کرے پس اسے علم نہ ہو کہ آیا اس نے تین رکعت نماز پڑھی ہے یا چار رکعت تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب : اگر یہ شک اسے پہلی مرتبہ پیش آیا تو از سرے نو نماز شروع کرے اور اگر یہ شک اسے بہت دفعہ پیش آ چکا ہو تو اپنے غالب گمان پر بنا کرے اور ہر ایسی جگہ یعنی رکعت پر بیٹھے جسے اپنے بیٹھنے کی جگہ خیال کرے اور اگر اسے غالب گمان حاصل نہ ہو تو یقین یعنی اَقل  یعنی کم رکعتوں پر بنا کرے اور دونوں صورتوں میں سجدہ سہو کرے۔


Lesson 18


سجدۂ تلاوت کا بیان


سوال : ہم قرآن پاک کی تلاوت کرنے والوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ دوران تلاوت ایک سجدہ کرتے ہیں اس سجدہ کی حقیقت کیا ہے؟

جواب : اس سجدہ کا نام سجدۂ تلاوت رکھا جاتا ہے اور یہ اس پر واجب ہوتا ہے جو سجدہ کی آیت پڑھے یا اسے سنے برابر ہے کہ قرآن سننے کا ارادہ کیا ہو یا ارادہ نہ کیا ہو






سوال : جن (سورتوں) میں سجدہ کی آیات واقع ہوئی ہیں ان کی تعداد بیان کرنے کے ساتھ ان سورتوں کے نام بیان کیجئیے؟

جواب : سجدہ کی آیات چودہ سورتوں میں واقع ہوئی ہیں اور ان کے نام درج ذیل ہیں

سورۃ الاعراف
2
 سورۃ الرعد
سورۃ النحل
سورۃ الاسراء
5  
سورۃ مریم
سورۃ الحج
سورۃ الفرقان
سورۃ النمل
9  
سورۃ الم السجدہ
10 
 سورۃ ص
11 
سورۃ حم السجدہ
12 
سورۃ النجم
13  
سورۃ الانشقاق
14
  سورۃ العلق


اور سجدہ کی آیات حفاظ کے ہاں معروف ہیں اور مصاحف میں ان پر علامات لکھی گئی ہیں



 سوال : جب امام سجدہ کی آیت کی تلاوت کرے تو کیا مقتدی پر سجدہ واجب ہوتا ہے؟

جواب :  جب امام سجدہ کی آیت تلاوت کرے (تلاوت)بلند آواز سے ہو یا پوشیدہ آواز سے تو (امام) اس (آیت) کا سجدہ کرے اور مقتدی اس کے ساتھ سجدہ کرے



سوال : اگر مقتدی سجدہ کی آیت تلاوت کرے تو کیا اسے اور اس کے امام کو سجدہ لازم ہوجاتا ہے؟

جواب :  اگر مقتدی(سجدہ کی) آیت تلاوت کرے تو سجدہ اسے اور نہ ہی اس کے امام کو لازم  ہوتا ہے



سوال : اگر(لوگ) ایسے شخص سے سجدہ کی آیت سنیں جو نماز میں ان کے ساتھ نہیں اس حال میں کہ وہ (لوگ) نماز میں ہیں تو کیا سجدہ ان پر واجب ہو جاتا ہے؟

جواب : سجدہ ان پر واجب ہو جاتا ہے لیکن وہ نماز میں سجدہ نہ کریں بلکہ اس کے بعد سجدہ کریں



سوال : اگر انہوں نے نماز میں سجدۂ(تلاوت) کر لیا تو کیا انہیں کفایت کرے گا؟

جواب : انہیں کفایت نہیں کرے گا
 


سوال : اور کیا ان کی نماز اس زائد سجدہ سے فاسد ہو جائے گی؟

جواب : ان کی نماز اس وجہ سے فاسد نہیں ہو گی



سوال : ایک شخص نے نماز کے باہر سجدہ کی آیت تلاوت کی اور اس کا سجدہ نہیں کیا یہاں تک کہ نماز میں داخل ہوا پس اس (آیت سجدہ) کی تلاوت کی اور دونوں کا سجدہ کر لیا تو کیا یہ سجدہ اسے دونوں تلاوتوں سے کفایت کرے گا

جواب : جی ہاں ! اسے کفایت کرے گا جبکہ دونوں تلاوتیں ایک مجلس میں ہوں



سوال : اس (شخص) کے بارے میں آپکا قول کیا ہے جس نے نماز کے باہر سجدہ کی آیت تلاوت کی پس اس کا سجدہ کیا پھر نماز میں داخل ہوا اور اس میں اس آیت کی دوبارہ تلاوت کی تو کیا پہلا سجدہ اسے کفایت کرے گا؟

جواب :  پہلا سجدہ اسے کفایت نہیں کرے گا اور اس تلاوت کی وجہ سے دوبارہ سجدہ کرنا اس پر لازم ہے



سوال : جس نے ایک سجدہ (کی آیت) کی تلاوت کا تکرار کیا تو کیا ایک سجدہ اسے کفایت کرے گا؟

جواب : اگر اس نے ایک مجلس میں ایک آیت کی تلاوت کا تکرار کیا تو ایک سجدہ اسے کفایت کرے گا اور اگر اس نے کئی مجلسوں میں اس کا تکرار کیا تو مجلس کے بدل جانے کے مطابق کئی سجدے اس پر واجب ہوں گے.اور اسی طرح جب وہ متعدد سورتوں میں سے سجدہ کی آیات تلاوت کرے تو ہر آیت کے لیئے (علیحدہ) سجدہ کرے اگرچہ ایک مجلس میں ان کی تلاوت کرے



سوال : جو سجدہ تلاوت کرنا چاہے تو کیسے کرے؟

جواب : ہاتھوں کو اٹھائے بغیر تکبیر کہے اور ایک سجدہ کرے پھر تکبیر کہے اور اپنا سر اٹھائے اور اس پر تشھد و سلام نہیں


Lesson 19


مریض کی نماز کا بیان


سوال: ایک مریض کھڑا ہونے کی طاقت نہیں رکھتا تو کیسے نماز پڑھے؟ 

جواب: جب کھڑا ہونا مریض پر دشوار ہو جاۓ تو بیٹھ کر نماز پڑھے رکوع کرے اور سجدہ کرے۔



سوال: اگر رکوع اور سجدہ کی طاقت نہ رکھے؟ 

جواب: رکوع اور سجدہ اشارے سے کرے اور سجدہ،رکوع سے زیادہ پست کرے اور اپنے چہرے کی طرف کوٸ شے نہ اٹھاۓ تاکہ اس پر سجدہ کرے۔



سوال: اگر بیٹھنے کی طاقت نہ رکھے ؟ 

جواب: وہ چت لیٹ جاۓ اور اپنے پاٶں قبلہ کی طرف کردے اور اپنے سر کے نیچے ایسی (چیز) رکھے جس سے اس کا سر اونچا ہوجاۓ اور اس کا چہرہ قبلہ کی طرف ہو جاۓ پس وہ اسی طرح چت لیٹے ہوۓ رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرتے ہوۓ نماز پڑھے۔ 





سوال: اس (صورت) میں آپ کا قول کیا ہے جب وہ پہلو کے بل لیٹ جاۓ؟ 

جواب: اگر وہ پہلو کے بل لیٹ جاۓ اس حال میں کہ اس کا چہرہ قبلہ کی طرف ہو اور رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرتے ہوۓ نماز پڑھے تو جاٸز ہے۔ 



سوال: اگر سر سے اشارہ کرنے کی طاقت نہ رکھے تو کیا آنکھوں یا ابروٶں یا دل سے اشارہ کرے؟
جواب: صرف سر سے اشارہ اگر سر سے اشارہ کرنے کی طاقت نہ رکھے تو نماز کو مٶخر کر دے۔ 



سوال: ایک مریض قیام پر قدرت رکھتا ہے اور رکوع اور سجدہ پر قدرت نہیں رکھتا تو کیسے نماز پڑھے؟
جواب: اس وقت قیام اسے لازم نہیں اور اس کیلۓ افضل یہ ہے کہ بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھے پس اگر کھڑے ہو کر اشارہ کرتے ہوۓ نماز پڑھے تو (بھی) جاٸز ہے۔ 



سوال: اگر تندرست کچھ نماز کھڑے ہو کر پڑھ لے پھر اسے بیماری لاحق ہو جاۓ تو کیسے اپنی نماز مکمل کرے؟ 

جواب: اسے بیٹھ کر مکمل کرے، رکوع کرے اور سجدہ کرے پس اگر رکوع اور سجدہ کی طاقت نہ رکھے تو اشارہ کے ساتھ اسے مکمل کرے اور اگر بیٹھنے کی طاقت نہ رکھے تو اسے چت لیٹ کر اشارہ سے مکمل کرے ۔ 



سوال: اگر بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے رکوع اور سجدہ کرے پھر دورانِ نماز تندرست ہو جاۓ تو کیا ازسر نو نماز پڑھے؟ 

جواب: نۓ سرے سے نماز نہ پڑھے بلکہ کھڑے ہو کر اپنی نماز پر بنا کرے۔ 



سوال: اگر اشارہ کے ساتھ نماز کا کچھ حصہ پڑھے پھر رکوع اور سجدہ پر قادر ہو جاۓ تو کیا جو نماز پڑھ چکا ہے اس پر بنا کرے؟ 

جواب: جو نماز پڑھ چکا ہے اس پر بنا نہ کرے بلکہ ازسر نو نماز پڑھے۔ 



سوال: اُن نمازوں کی قضا کا حکم کیا ہے جو اُس سے بیہوشی کی وجہ سے فوت ہو جاٸیں؟ 

جواب: جس پر پانچ نمازوں یا ان سے کم تک بیہوشی طاری رہی تو اُن کی قضا کرے جب تندرست ہو جاۓ اور اگر بیہوشی کی وجہ سے ان (یعنی پانچ) سے زیادہ (نمازیں) فوت ہو جاٸیں تو قضا نہ کرے۔


Lesson 20


  مسافر کی نماز کا بیان  


سوال : کیا سفید شریعت میں مسافر کے احکام ہیں ؟
جواب : جی ہاں ! مسافر کے احکام ہیں جن کو فقہ کی کتابوں میں ان کے ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔ 



سوال: اُن میں سے وہ (احکام) بیان کیجۓ جو نماز سے متعلق ہیں ؟ 

جواب : جب (کوئی) اونٹ کی رفتار اور پیدل چلنے کے ساتھ تین دن کی مسافت کا سفر کرنا چاہے اور اپنے شہر یا گاٶں سے نکل جاۓ تو وہ رباعی فرض (نماز) میں قصر کرے اور اس کا معنی یہ ہے کہ وہ نمازِ ظہر،نمازِ عصر، نمازِ عشا۶ دو رکعت دو رکعت پڑھے اور نمازِ مغرب ، وتر، سنتوں اور نفلوں میں قصر نہیں ہے۔ 



سوال: اگر اُن نمازوں میں چار رکعت نماز پڑھے جن میں قصر کی جاتی ہے تو کیا اس پر اسے ثواب ملے گا؟ 

جواب: دو رکعتوں پر اضافہ اس کیلۓ مکروہ ہے کیونکہ قصر مٶکد ہے۔ 




سوال: اور اس کے مکروہ ہونے کے باوجود اگر (کسی) نے چار (رکعت) نماز پڑھ لی تو کیا دو رکعتیں اسے فرض کفایت کریں گی؟ 

جواب: اگر اس نے چار ( رکعت) نماز پڑھی اس حال میں کہ وہ دوسری (رکعت) میں تشہد کی مقدار بیٹھا تو دو رکعتیں اسے فرض سے کفایت کریں گی اور آخری دو (رکعتیں) اس کیلۓ نفل ہو جاٸیں گی۔ 






سوال: اگر دوسری (رکعت) میں تشہد کی مقدار نہیں بیٹھا تو اس کا حکم کیا ہے؟ 

جواب: اس کی فرض (نماز) اس وجہ سے باطل ہوگٸ اور اس پر لازم ہے کہ اپنی نماز لوٹاۓ۔ 



سوال: کیا مسافر بعض اوقات اپنی رباعی (نماز) کو مکمل کرتا ہے؟ 

جواب: جی ہاں! مکمل کرتا ہے جب وہ اس نماز کے وقت میں مقیم امام کی اقتدا کرے جو نماز وہ پڑھا رہا ہے اور اسی طرح مسافر رباعی (نماز) کو مکمل کرے جب کسی شہر یا بستی میں پندرہ دن قیام کرنے کی نیت کرلے۔ 



سوال: اگر پندرہ دن سے کم قیام کرنے کی نیت کرے ؟ 

جواب: قصر کرے اور اتمام نہ کرے۔ 



سوال: ایک مسافر کسی شہر یا گاٶں میں داخل ہو پندرہ دن قیام کرنے کی اس کی نیت نہیں ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ کل یا پرسوں چلا جاٶں گا تو اس کا حکم کیا ہے؟
جواب: اس کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنی رباعی نماز دو رکعت دو رکعت پڑھے اگرچہ اس (حالت) میں کٸی سال رہے۔ 



سوال: مسلمانوں کا لشکر دشمن کی سرزمین میں داخل ہوا اور انہوں نے پندرہ دن قیام کرنے کی نیت کی تو کیا نماز مکمل کرنا اُن پر لازم ہے؟ 

جواب: اُن پر لازم ہے کہ وہ نماز میں قصر کریں کیونکہ ان کی نیت غیر معتبر ہے۔



سوال: مسافر نے رباعی (نماز) میں امامت کی اس حال میں کہ اس کے پیچھے مقیم (لوگ) ہیں تو  کیا انہیں نمازِ قصر پڑھاۓ ؟ 

جواب: جی ہاں! مسافر امام نماز میں قصر کرے اور جو مقیم (لوگ)  اس کے پیچھے ہیں وہ دو رکعت پر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اتمام کریں (یعنی رباعی نماز مکمل کریں)۔



سوال: کیا مسافر امام مقتدیوں کو کچھ بتاۓ ؟

جواب: جی ہاں! اس کیلۓ مستحب ہے کہ جب سلام پھیرے تو انہیں مخاطب بناتے ہوۓ کہے کہ اپنی نماز مکمل کرو کیونکہ ہم مسافر ہیں۔



سوال: جب مسافر مکہ اور منٰی میں پندرہ دن قیام کرنے کی نیت کرے تو وہ مسافر ہے یا مقیم ؟

جواب: وہ مسافر ہے کیونکہ اقامت کی نیت ایک آبادی میں معتبر ہوتی ہے۔ 



سوال: مسافر اپنے وطن لوٹ آیا اور اس نے اس میں پندرہ دن قیام کرنے کی نیت نہیں کی تو وہ اتمام کرے یا قصر کرے؟

جواب: جب مسافر اپنے وطن میں داخل ہو اگرچہ ایک گھڑی کیلۓ تو اپنی نماز مکمل کرے اور اس میں اقامت کی نیت کی شرط نہیں لگاٸ جاتی۔



سوال: ایک شخص کا وطن اصلی تھا جس میں وہ پیدا ہوا اور کچھ عرصہ زندگی بسر کی پھر اسے چھوڑ دیا اور دوسرے شہر کو وطن بنا لیا پس اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے پہلے وطن میں داخل ہوا تو قصر کرے یا اتمام کرے؟ 

جواب: قصر کرے جبکہ اصلی وطن تین دن یا زیادہ مسافت پر ہو نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی پھر جب آپ ﷺ مکہ (مکرمہ) میں داخل ہوۓ تو نماز میں قصر فرماٸ۔ 



سوال: مسافر کہ سفر میں نماز اس سے فوت ہوگٸ اور وہ اس کی قضا چاہتا ہے یا اپنے وطن میں مقیم کی نماز اس سے فوت ہوگٸ اور وہ اس نماز کو قضا کرنا چاہتا ہے تو کیسے کریں ؟ 

جواب: اس بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ قضا ادا کی مانند پس جس سے سفر میں نماز فوت ہوگٸی وہ حضر میں دو رکعت اس کی قضا کرے اور جس سے حضر میں نماز فوت ہوگٸ تو وہ سفر میں چار (رکعت) اس کی قضا کرے۔ 



سوال:  یہ رخصت فرمانبردار مسافر کیلۓ ہے یا فرمانبردار اور نافرمان اس میں برابر ہیں ؟ 

جواب: فرمانبردار اور نافرمان اس رخصت میں برابر ہیں۔



سوال: اس زمانے میں (لوگ) موٹر کاروں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں اور کوٸی مشقت مسافروں کو لاحق نہیں ہوتی تو کیا وہ اس کے باوجود قصر کریں؟ 

جواب: جب وہ قصر کی مسافت کا ارادہ کرتے ہوۓ اپنے وطنوں سے نکلیں تو نماز میں قصر کریں اور نفسِ سفر کو مشقت کے قائم  مقام بنا دیا گیا ہے۔ 



سوال: کیا مسافر کیلۓ دو نمازوں ظہر و عصر یا مغرب و عشا۶ کے درمیان جمع جاٸز ہے؟
جواب: یہ (جمع) ازروۓ فعل جائز ہے اور ازروۓ وقت جائز نہیں کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں 

اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَت عَلَی المُٶمِنِینَ کِتٰبًا مَّوقُوتًا 

( النسا۶ : ١٠٣) 

 یقیناً نماز اہل ایمان پر فرض ہے جس کا وقت مقرر ہے



سوال : آپ کے قول ”یہ ازروۓ فعل جاٸز ہے اور ازروۓ وقت جاٸز نہیں“ کی شرح کیا ہے؟ 

جواب: جمع ازروۓ فعل یہ ہے کہ ظہر کو مٶخر کرے اور عصر کو معجل کرے پس ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھے اور یہ کہ مغرب کو مٶخر کرے پس اسے آخر وقت میں اور عشا۶ کو اول وقت میں پڑھے اور یہی جمع ازروۓ فعل ہے اور فقہا۶ کے عرف میں اس کا نام ”جمع صوری“ رکھا جاتا ہے۔ پس بہرحال دو وقتوں میں سے ایک (وقت) کی نماز دوسری (نماز) کے وقت ازروۓ تقدیم یا ازروۓ تاخیر سو وہ ہمارے نزدیک جاٸز نہیں یہی جمع وقتی ہے فقہا۶ جس کا نام ”جمع حقیقی“ رکھتے ہیں۔

Lesson 21


نماز جمعہ کا بیان


سوال : نماز جمعہ کا حکم کیا ہے؟

جواب : یہ آزاد، بالغ، عاقل، تندرست، بینا، مقیم مرد پر فرض عین ہے



سوال : کیا اس کو قائم کرنے کےلیے شرائط ہیں؟
جواب : جی ہاں ! اس کیلیے شرائط ہیں وہ درج ذیل ہیں 

اولیہ کہ وہ جامع شہر یا شہر کی عید گاہ میں ہو پس دیہاتوں میں جائز نہیں 

دوم : یہ کہ بادشاہ اسے قائم کرے یا وہ (قائم کرے) جسے بادشاہ حکم کرے یا وہ اسے قائم کرے مسلمان جس پر اکھٹے ہو جائیں اور اسے امام کے طور پر متعین کریں تاکہ وہ انہیں جمعہ  پڑھائے

سوم : (نماز جمعہ )کا ظہر کے وقت میں ہونا پس ظہر کے وقت سے پہلے اور اس کے گزرنے کے بعد صحیح نہیں ہوتی 

چہارم : نماز سے پہلے خطبہ، پس اگر اللّه تعالی کے ذکر پر اکتفا کرے تو حضرت ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہے اور آپ کے دونوں شاگرد 

 (حضرت ابو یوسف و محمد ) 
فرماتے ہیں کہ طویل ذکر ضروری ہے جس کا نام خطبہ رکھا جاتا ہے 

پنجم : جماعت، حضرت ابو حنیفہ و حضرت محمد صلی اللّه علیہ وسلم کے نزدیک اس کی کمتر
 (تعداد )
امام کے سوا دو ہے





سوال : ان عذروں کو بیان کیجیے جن کی وجہ سے جمعہ میں حاضر نہ ہونا جائز ہے؟
جواب : وہ درج ذیل ہیں


 (1 )
نمازی کا قصر کی مسافت کا مسافر ہونا
 (2)
نسوانیت
  (3)
بیماری
  (4)
اندھا پن
 (5)
غلامی


پس(نماز جمعہ)مسافر، عورت، بیمار، نابینا اور غلام پر واجب نہیں ہوتی



سوال : اگر یہ (لوگ )نماز جمعہ میں حاضر ہوں اور لوگوں کے ساتھ نماز پڑھیں تو کیا یہ (نماز جمعہ )انہیں وقت کے فرض یعنی  (نماز ظہر )سے کفایت کرے گی؟

جواب : جی ہاں ! یہ انہیں وقت کے فرض سے کفایت کرے گی. 



سوال : اگر غلام یا بیمار یا مسافر یا نابینا نماز جمعہ میں امامت کریں اس حال میں میں کہ ان کے پیچھے آزاد،تندرست اور مقیم  (لوگ ) ہوں  تو کیا امام و مقتدیوں کی نماز صحیح ہو جائے گی؟

جواب : جی ہاں! ان کیلیے جائز ہے کہ نماز جمعہ میں لوگوں کی امامت کریں اور ان سب کی نماز صحیح ہو جائے گی



سوال : جس(شخص )سے نماز جمعہ عذر کی وجہ سے فوت ہو جائے تو اس پر کیا واجب ہے؟

جواب : وہ نماز ظہر پڑھے اور اسی طرح ہر وہ (شخص نماز ظہر پڑھے ) جو (نماز جمعہ ) میں حاضر نہیں ہوا اور اگر عذر کے بغیر  (نماز جمعہ ) چھوڑنے والا ہو تو گہنگار ہو گا



سوال : جس نے جمعہ کے دن امام کی نماز سے پہلے اپنے گھر میں نماز ظہر پڑھ لی اس حال میں کہ اس کیلیے کوئی عذر نہیں تو کیا یہ جائز ہے؟ 

جواب : یہ اس پر حرام ہے


سوال : اگر وہ یہ کرے اور ظہر کا وقت نکل جائے تو کیا وہ نماز جو اس نے پڑھی وقت کے فرض (یعنی نماز جمعہ )سے اسے کفایت کرے گی؟ 

جواب : وقت کے فرض سے اسے کفایت کرے گی 



سوال : اور اگر وہ جمعہ کی طرف متوجہ ہو اور امام کے ساتھ نماز جمعہ پڑھے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب : نماز جمعہ صحیح ہو گئی اور جمعہ کی طرف چلنے سے نماز ظہر جو وہ پڑھ چکا,باطل ہو گئی اور یہ حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللّه کے نزدیک ہے اور آپ کے صاحبین فرماتے ہیں کہ اس کی ظہر باطل نہیں ہو گی یہاں تک کہ وہ نماز جمعہ میں امام کے ساتھ داخل ہو جائے



سوال : کیا معذور اور قیدی (لوگ) جمعہ کے دن, نماز ظہر جماعت کے ساتھ پڑھ لیں؟

جواب : یہ ان کیلیئے مکروہ ہے وہ تنہا تنہا نماز (ظہر) پڑھیں



سوال : جو (شخص) نماز جمعہ میں ایک رکعت کے ساتھ مبسوق ہوا تو کیسے کرے؟

جواب : اس پر جمعہ کی بنا کرے اور (جمعہ) کی جو (رکعت) اس سے فوت ہو گئی اس کی قضا کرے



سوال : پس اگر اس نے تشہد میں یا سجدۂ سہو میں امام کو پا لیا تو کیا کرے؟

جواب : حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللّه اور حضرت ابو یوسف رحمہ اللّه کے نزدیک اس پر جمعہ کی بنا کرے اور حضرت محمد رحمہ اللّه فرماتے ہیں کہ اگر (امام) کے ساتھ دوسری رکعت کا اکثر (حصہ) پا لیا تو اس پر جمعہ کی بنا کرے اور اگر (امام) کے ساتھ دوسری رکعت کا کم (حصہ) پایا تو اس پر ظہر کی بنا کرے یعنی اس تحریمہ کے ساتھ چار رکعت نماز پڑھے



سوال : جمعہ کی اذان کے بعد خرید و فروخت کا حکم کیا ہے؟

جواب : یٰآاٙیُّھٙا الّٙذِیْنٙ اٰمٙنُوْا اِذٙا نُوْدِیٙ لِلصّٙلٰوۃِ مِنْ یّٙومِ الْجُمُعٙۃِ فٙاسْعٙوْا اِلٰی
 ذِکْرِ اللّٰہِ وٙذٙرُوا الْبٙیْعٙ  


(الجمعۃ: ٩ )


 جب جمعہ کے دن نماز  (جمعہ) کیلیئے اذان دی جائے  تو اللّه تعالیٰ کے ذکر (خطبہ و نماز) کی طرف (فوراً) چل پڑو اور خرید و فروخت(و دیگر مشاغل) چھوڑ دو



سوال: امام کے (منبر کی طرف) نکلنے کے بعد نماز و کلام کا حکم کیا ہے؟

جواب : جب امام (منبر کی طرف) نکل آئے تو لوگ نماز و کلام چھوڑ دیں یہاں تک کہ وہ اپنے خطبہ سے فارغ ہو جائے یہ حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللّه کے نزدیک ہے اور آپ کے صاحبین فرماتے ہیں کہ کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں جب تک (امام) خطبہ شروع نہ کرے



سوال : جمعہ میں کتنی مرتبہ اذان دی جائے؟

جواب : دو مرتبہ,پہلی اذان جب آفتاب ڈھل جائے پس اس وقت لوگوں پر لازم ہے کہ وہ جمعہ کی طرف متوجہ ہوں اور خرید و فرخت چھوڑ دیں اور اللّه تعالی کے ذکر (خطبہ و نماز) کی طرف چل پڑیں دوسری (اذان) جب امام منبر پر چڑھے اور اس پر بیٹھ جائے پس تحقیق شان یہ ہے کہ اس وقت اس کے سامنے اذان دی جائے پھر امام دو خطبے دے پس جب امام دوسرے خطبہ سے فارغ ہو تو نماز قائم کرے



سوال : مسنون طریقہ پر خطبہ کی صفت بیان کیجئیے؟

جواب : امام باوضو کھڑا ہو کر دو خطبے دے. دونوں (خطبوں) کے درمیان ایک بیٹھک (یعنی تھوڑی دیر) بیٹھے



سوال : امام جمعہ میں بلند آواز سے قرأت کرے یا پوشیدہ آواز سے (قرأت) کرے؟

جواب : اس میں بلند آواز سے قرأت کرے



سوال :  اس (شخص) کیلیئے خطبہ سننے کا حکم کیا ہے جو (امام) سے دور ہو؟

جواب : اس (مسئلہ) میں دور والا قریب کی طرح ہے خطبہ کے وقت کان لگانا اور خاموش رہنا ہر اس (شخص)کیلیئے واجب ہے جو(امام سے) دور ہو یا قریب ہو, امام کے آواز سنے یا نہیں

Lesson 22


نمازِ عیدین کا بیان 


سوال : نمازِ عیدین کا حکم کیا ہے؟ 

جواب: ہر اس ( شخص) پر واجب ہے جس پر جمعہ واجب ہوتا ہے۔



سوال: عیدین کا شروع وقت اور آخری (وقت) کیا ہے؟ 

جواب: اس کا اول وقت تب ہے جب آفتاب بلند ہونے سے نماز جاٸز ہو جاۓ اور اس کا آخری وقت تب ہے جب آفتاب ڈھل جاۓ لیکن عید الاضحٰی کے دن نماز میں تعجیل مستحب ہے کیونکہ نماز کے بعد قربانیاں ہوتی ہیں اور عید الفطر کے دن اس میں تاخیر مستحب ہے۔ 



سوال: عیدین کے دنوں میں جو مسنون ہے اسے بیان کیجۓ؟ 

جواب: فطر اور اضحٰی کے دنوں میں مستحب ہے کہ مسواک کرے، غسل کرے،خوشبو لگاۓ اور اپنے اچھے کپڑے پہنے پس اگر عیدالفطر کا دن ہو تو طاق عدد کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھاۓ اور عیدگاہ کی طرف جانے سے پہلے صدقہ فطر نکالے اور اگر عیدالاضحٰی کا دن ہو تو کھانے کو مٶخر کرے حتٰی کہ نماز سے فارغ ہو اور اس کے بعد قربانی کرے پس اپنی قربانی میں سے کھاۓ ۔ 





سوال: کیا راستے میں تکبیر کہے جب عیدین کی نمازوں کیلۓ جاۓ ؟ 

جواب: ہمارے تینوں اماموں کے نزدیک وہ راستے میں بلند آواز سے تکبیر کہے جب عیدالاضحٰی کے دن عیدگاہ کی طرف جاۓ۔ پس بہرحال عیدالفطر کے دن میں تو (صاحبین) کے نزدیک تکبیر کہے اور حضرت ابوحنیفہؒ کے نزدیک تکبیر نہ کہے ( فتاوی شامیہ، جوہرہ نیرہ اور ہندیہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کا مختار مسلک یہ ہے کہ عیدالفطر کے دن پوشیدہ آواز سے تکبیر کہنا مستحب ہے تو گویا امام ابو حنیفہؒ کا صاحبین سے نفس تکبیر میں اختلاف نہیں البتہ جہر میں اختلاف ہے) ۔



سوال: کیا عیدگاہ جانے میں معروف سنت ہے؟ 

جواب: جو عیدین کی نمازوں کیلۓ جاۓ تو اس کیلۓ مستحب ہے کہ جانے اور واپس آنے میں راستہ بدل دے پس ایک راستہ سے جاۓ اور دوسرے راستے سے لوٹے۔



سوال: کیا نمازِ عید سے پہلے عیدگاہ میں نفل پڑھے؟
جواب: نمازِ عید سے پہلے اور اس کے بعد عیدگاہ میں نفل نہ پڑھے۔ 



سوال: نمازِ عیدین کی کیفیت بیان کیجۓ؟ 

جواب: امام اور لوگ آبادی سے صحرا۶ کی طرف نکلیں اور امام لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھاۓ پہلی (رکعت) میں احرام کی تکبیر کہے پھر ثناء پڑھے پھر ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھوں کو اٹھاتے ہوۓ بلند آواز سے تین تکبیریں کہے پھر پوشیدہ آواز سے تعوذ و تسمیہ پڑھے پھر بلند آواز سے ”فاتحة الکتاب“ اور اس کے ساتھ (کوٸی ) سورت پڑھے پھر ہر نماز میں رکوع اور سجدہ کرنے کے مطابق اس رکعت کو مکمل کرے پس جب دوسری رکعت کیلۓ کھڑا ہو تو پوشیدہ آواز سے ”بسم اللّه الرحمٰن الرحیم“ پڑھے بلند آواز سے فاتحة الکتاب اور اس کے ساتھ (کوٸی) سورت پڑھے پس جب قرا۶ت سے فارغ ہو تو ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھوں کو اٹھاتے ہوۓ بلند آواز سے تین تکبیریں کہے پھر ہاتھوں کو اٹھاۓ بغیر رکوع کیلۓ چوتھی تکبیر کہے اور اس رکعت کو نمازوں کی ادا میں مُعتَادُ (طریقہ) کے مطابق مکمل کرے اور تشہد، نبی کریم ﷺ پر درود اور دُعا کے بعد سلام پھیرے۔ 



سوال: کیا زائد تکبیروں کے درمیان ہاتھوں کو چھوڑ دے یا انہیں اپنی ناف کے نیچے رکھے؟ 

جواب: پہلی رکعت میں تیسری (زائد ) تکبیر کے سوا تمام زائد تکبیروں میں (ہاتھوں) کو چھوڑ دے پس تحقیق وہ (پہلی رکعت میں تیسری تکبیر) کے بعد (ہاتھوں) کو ناف کے نیچے رکھے۔



سوال: یہ عیدین کی نماز میں امام کا عمل ہے پس مقتدی کیا کریں؟ 

جواب: جو (لوگ) اس کے پیچھے نماز پڑھیں تو وہ ہر شے میں اس کی اقتدا۶ کریں مگر تعوذ،تسمیہ اور قرا۶ت میں (نہیں) پس وہ ان تینوں کو نہ پڑھیں اور بلند آواز سے تکبیر نہ کہیں بلکہ تکبیرات پوشیدہ آواز سے کہیں۔



سوال: کیا عیدین کی نمازوں میں خطبہ ہے؟ 

جواب: جی ہاں! عیدین کی نمازوں میں دو خطبے مسنون ہیں پس امام خطبہ دے اور اُن (خطبوں) میں عیدین کے احکام مثلاً عیدالفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر اور نمازِ اضحٰی کے خطبہ میں تکبیراتِ تشریق اور قربانی کے مسائل سکھاۓ۔



سوال: عیدین کے خطبہ کا حکم کیا ہے؟
جواب: یہ سنت ہے اور اس کا محل نماز کے بعد ہے۔ 



سوال: حاضرین کیلۓ (خطبہ) سننے کا حکم کیا ہے؟ 

جواب: ہر خطبہ کے وقت کان لگانا اور خاموش رہنا واجب ہے برابر ہے کہ جمعہ کا خطبہ ہو یا عید کا خطبہ۔



سوال: ایک شخص پیچھے رہ گیا پس نمازِ عید اس سے فوت ہوگٸ تو کیا اُسے قضا کرے؟

جواب: اس پر نمازِ عید کی قضا نہیں جس سے فوت ہو جاۓ۔ 



سوال: پس اگر چاند ابر آلود ہو جاۓ اور (لوگ) امام کے پاس زوال کے بعد چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو کب نماز عید پڑھے؟ 

جواب: کل آٸندہ نماز(عید) پڑھے۔



سوال: پس اگر عذر پیش آجاۓ (جو) لوگوں کو دوسرے دن میں نماز پڑھنے سے روک دے تو کب نمازِ (عید) پڑھی جاۓ؟ 

جواب: دوسرے دن کے گزرنے کے بعد نمازِ (عید) نہ پڑھی جاۓ۔



سوال: پس اگر قربانی کے دن میں نماز سے ( مانع) عذر پیش آجاۓ تو کب نمازِ (عید) پڑھے؟ 

جواب: کل آٸندہ اور پرسوں آٸندہ نمازِ (عید) پڑھے اور اس کے بعد نمازِ(عید) نہ پڑھے۔



سوال: تکبیرِ تشریق کیا ہے؟ 

جواب: وہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد کہے

 اَللّٰہُ اَکبَرُ اَللّٰہُ اَکبَرُ ،لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکبَرُ اَللّٰہُ اَکبَرُ وَ لِلّٰہِ الحَمدُ۔ 



سوال: اس تکبیر کے وقت کی ابتدا کب اور اس کی انتہا کب (ہوتی) ہے؟
جواب: اس کا اول عرفہ کے دن نمازِ فجر کے بعد ہے اور اس کا آخر قربانی (دس ذوالحجہ) کے دن نمازِ عصر کے بعد ہے، یہ حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہے اور آپؒ کے صاحبینؒ فرماتے ہیں کہ اس کا آخری وقت ایام تشریق کے آخر میں نمازِ عصر کے بعد ہے اور فتویٰ (صاحبینؒ) کے قول پر ہے۔



سول: یہ تکبیر بلند آواز کے پڑھی جاۓ یا پوشیدہ آواز سے پڑھی جاۓ ؟ 

جواب: امام اور مقتدی ( حضرات) اسے بلند آواز سے پڑھیں مگر عورت اسے بلند آواز سے نہ پڑھے۔ 



سوال: اگر امام تکبیر تشریق بھول جاۓ تو کیا مقتدی تکبیر کہے؟
جواب: جی ہاں! مقتدی تکبیر کہے اگرچہ امام بھول جاۓ۔



سوال: اس تکبیر کا حکم کیا ہے؟ 

جواب: یہ (تکبیر) ہر اس ( شخص) پر واجب ہے جو پانچوں فرض (نمازوں) یا جمعہ میں سے (جونسی) فرض نماز پڑھے اور سلام کے بعد فوراً اسے پڑھے۔


Lesson 23


  نمازِ کُسوف کا بیان  



سوال : آفتاب میں گہن لگنے کے وقت مسلمانوں کو کس (عمل) کا حکم دیا گیا ہے؟ 

جواب: جب آفتاب میں گہن لگ جاۓ تو امام اذان و اقامت کے بغیر لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھاۓ اور اُن دو (رکعتوں) کو نفل کی صورت میں پڑھے اس طور پر کہ ہر رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے کرے اور اُن میں قرأت کو طویل کرے پھر اللّٰہ تعالی سے دعا کرے یہاں تک کہ آفتاب روشن ہو جاۓ۔ 






سوال: ان میں بلند آواز سے قرا۶ت کرے یا پوشیدہ آواز سے (قرا۶ت) کرے؟ 

جواب: حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک پوشیدہ آواز سے (قرا۶ت) کرے اور حضرت ابو یوسف و حضرت محمدؒ فرماتے ہیں کہ بلند آواز سے (قرا۶ت) کرے۔



سوال : کونسا امام لوگوں کو یہ نماز پڑھاۓ؟ 

جواب : وہ امام ان کو یہ نماز پڑھاۓ جو انہیں نمازِ جمعہ پڑھاتا ہے۔



سوال: اگر جمعہ کا امام حاضر نہ ہو؟
جواب: لوگ اکیلے اکیلے یہ نماز پڑھیں۔ 



سوال: کیا نمازِ کسوف میں خطبہ ہے؟ 

جواب: اس میں خطبہ نہیں۔ 



سوال: اگر ماہتاب میں گہن لگ جاۓ تو مسلمان کیا کریں؟ 

جواب: اکیلے اکیلے نماز پڑھیں۔



سوال: کیا دونوں کسوف میں نماز کے علاوہ کوٸ عمل ہے؟ 

جواب: حضرت عاٸشہؓ نے روایت فرمایا ہے کہ ”نبیﷺ نے فرمایا کہ آفتاب و ماہتاب اللّٰہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت اور (کسی) کی زندگی کی وجہ سے ان میں گہن نہیں لگتا پس جب تم یہ (منظر) دیکھو تو اللّٰہ تعالی سے دعا کرو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو“۔ اور حضرت اسما۶ؓ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ ” البتہ تحقیق نبی کریمﷺ نے آفتاب میں گہن لگنے میں بُردہ آزاد کرنے کا حکم فرمایا ہے


Lesson 24


نمازِ استسقا۶ کا بیان


سوال : استسقا۶ کا مطلب کیا ہے؟ 

جواب : وہ بارش طلب کرنا ہے جب لوگ قحط زدہ ہوں۔ 



سوال: استسقا۶ میں کیا کیا جاۓ؟ 

جواب: اس میں نماز مشروع ہے لیکن وہ واجب نہیں پس اگر وہ دعا و استغفار پر اکتفا۶ کریں تو جائز ہے پس تحقیق نبی کریمﷺ نے کبھی نمازِ استسقا۶ پڑھی اور بعض اوقات جمعہ کے دن اپنے منبر پر بارش کے اُترنے کیلۓ اللّٰہ تعالٰی سے دعا فرمائی اور نماز نہیں پڑھی اور یہ سب آپﷺ سے ثابت ہے۔ 





سوال: فقہ کی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ ” استسقا۶ میں نماز مسنون نہیں“ تو آپؒ کے قول کا مطلب کیا؟

جواب: آپؒ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ نماز، استسقا۶ میں متعین نہیں اور سنتِ مٶکدہ نہیں اس حیثیت سے کہ اس کے سوا اِستسقا۶ صحیح نہ ہو۔


سوال: اگر امام لوگوں کو نمازِ استسقا۶ پڑھانا چاہے تو کیسے کرے؟ 

جواب: امام اور لوگ پیدل چلتے ہوۓ، خاکساری کرتے ہوۓ، اللّٰہ تعالی کیلۓ عاجزی کا اظہار کرتے ہوۓ ، اپنے سروں کو جھکاتے ہوۓ صحرا۶ کی طرف نکلیں اور امام (لوگوں) کو دو رکعت نماز پڑھاۓ جن میں بلند آواز سے قرا۶ت کرے پھر دو خطبے دے جن میں لوگوں کی طرف اپنا چہرہ کرے اور خطبہ کے دوران اپنی چادر پلٹ دے پس اوپر والے (کنارے) کو نیچے کردے اور نیچے والے(کنارے) کو اس کے اوپر کردے اور اس کے داٸیں پلو کو باٸیں کندھے پر اور برعکس (یعنی باٸیں پلو کو داٸیں کندھے پر) کردے اور قوم اپنی چادروں کو نہ پلٹے اور (امام) خطبہ کے بعد قبلہ رخ ہو اور دعا میں مشغول ہو اس حال میں کہ لوگ بیٹھے ہوۓ، قبلہ رخ ہونے والے، دعا کرنے والے، استغفار کرنے والے، توبہ کرنے والے ہوں اور مناسب ہے کہ وہ کمزوروں، بوڑھوں، بوڑھیوں اور بچوں کے طفیل بارش طلب کرے۔ 



سوال: کیا اس کے سوا کوٸی عمل ہے جو آپ نے ذکر فرمایا؟ 

جواب: جی ہاں! چاہۓ کہ وہ نمازِ (استسقا۶) کی طرف نکلنے سے پہلے صدقہ کریں۔


Lesson 25


ماہ رمضان کے قیام کا بیان


سوال : کیا ماہِ رمضان میں فرض نماز اور معروف و مشہور سنتوں سے زائد کوئ نماز ہے؟

جواب : نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ " جس نے ایمان و ثواب کی نیت سے رمضان شریف کے روزے رکھے اس کے وہ گناہ بخش دیے گۓ جو گزر چکے اور جس نے ایمان و ثواب کی نیت سے رمضان شریف ( کی راتوں) میں قیام کیا اس کے وہ گناہ بخش دیے گۓ جو گزر چکے۔

(رواہ البخاری و مسلم) 


پس اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ رمضان شریف میں
 ( یعنی) 
اس کی راتوں میں اس سے زائد قیام ہے جو وہ باقی مہینوں  میں نماز پڑھتے ہیں۔





سوال: لوگ ماہِ رمضان کی راتوں میں کیسے قیام کریں؟

جواب : امام قوم کے ساتھ نماز عشاء کے بعد بیس رکعت پڑھے اور ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرےاور ان کے پانچ ترویحے بناۓ۔



سوال: پانچ ترویح بنانے کا مطلب کیا ہے؟

جواب: ہر چار رکعتیں ایک ترویحہ ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام نماز تراویح رکھا جاتا ہے پس امام قوم کو راحت دینے کیلئے ہر ترویحہ کے بعد ( ترویحہ) کی مقدار بیٹھے۔



سوال: کیا یہ نماز خواتین کیلئے بھی سنت قرار دی گئ ہے؟

جواب: جی ہاں! رمضان شریف میں نماز عشاء کے بعد بیس رکعت مردوں و عورتوں سب کے لیے سنت مؤکدہ  قرار دی گئ ہے پس مرد مسجد میں  جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اور بہرحال خواتین تو اُن  کے گھر ان کیلئے بہتر ہیں۔



سوال: تراویح میں مردوں کیلئے جماعت کا حکم کیا ہے؟

جواب:  یہ سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے پس اگر مسجد والے اسے چھوڑ دیں گے تو گناہ گار ہوں گے۔



سوال: کیا ماہِ رمضان میں جماعت کے ساتھ نماز وتر پڑھی جاۓ؟

جواب: جی ہاں! جب امام پانچ ترویحوں سے فارغ ہو جاۓ تو انہیں جماعت ( کی صورت) میں وتر پڑھاۓ اور تینوں رکعتوں میں بلند آواز سے قراءت کرے اور امام  اور جو اس کے ساتھ ہوں پوشیدہ آواز سے قنوت پڑھیں ۔



سوال: کیا رمضان شریف کے علاوہ ( زمانہ) میں وتر کی جماعت ہے؟

جواب: رمضان شریف کے علاوہ ( زمانہ) میں جماعت کے ساتھ نماز وتر نہ پڑھی جاۓ۔

Lesson 26


 نماز خوف کا بیان 


سوال : جب دشمن اچانک آجائے اور خوف بڑھ جائے تو امام لوگوں کو کیسے نماز پڑھائے؟

جواب : امام لوگوں کے دو گروہ بنائے (ایک) گروہ دشمن کے مقابلے میں اور (دوسرا) گروہ اپنے پیچھے پس وہ اس گروہ کو مکمل (ایک) رکعت نماز پڑھائے پس جب وہ دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھائے تو یہ گروہ دشمن کے مقابلے میں چلا جائے اور دوسرا گروہ آجائے پس امام انہیں(ایک)رکعت نماز پڑھائے اور امام تشہد پڑھے اور سلام پھیرے اور وہ(لوگ)سلام نہ پھیریں پس جب امام سلام پھیر چکے تو وہ لوگ دشمن کے مقابلے میں چلے جائیں اور پہلا گروہ آجائے پس وہ قرأت کے بغیر اپنی وہ رکعت پڑھیں جو باقی رہ گئی اور تشہد پڑھیں اور سلام پھیریں اور دشمن کے مقابلے میں چلے جائیں اور دوسرا گروہ آجائے پس وہ قرأت وتشہد کے ساتھ باقی ماندہ رکعت پڑھیں اور سلام پھیریں






سوال : اگر امام مقیم ہو تو کیسے کرے؟

جواب : رباعی فرض پڑھائے ہر گروہ کو دو رکعت



سوال : پس جب نماز مغرب ہو تو انہیں کیسے نماز پڑھائے؟

جواب :  پہلے گروہ کو دو رکعت اور دوسرے (گروہ) کو(ایک) رکعت نماز پڑھائے



سوال : اگر خوف بڑھ جائے اس حیثیت سے کہ وہ جماعت کی نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور (سواریوں سے) اترنے سے عاجز ہو جائیں تو کیسے کریں؟

جواب : اکیلے اکیلے نماز پڑھیں اس حال میں کہ سوار ہوں رکوع اور سجدہ اشارہ سے کریں



سوال : اگر وہ قبلہ رخ ہونے پر قدرت نہ رکھتے ہوں؟

جواب : اس جہت کی طرف نماز پڑھیں جس کی طرف قدرت رکھتے ہوں



سوال : اگر ان میں سے کوئی زمین پر اترا ہو تو کیسے نماز پڑھے؟

جواب : نماز پڑھے اس حال میں کہ پیدل چلنے والا نہ ہو اور رکوع اور سجدہ کرے پس اگر رکوع اور سجدہ پر قادر نہ ہو تو(رکوع اور سجدہ) اشارہ سے کرے



سوال : پس اگر وہ قتال کی طرف مجبور ہو جائیں اور وہ قتال کریں اس حال میں کہ وہ نماز میں ہوں تو ان کی نماز کا حکم کیا ہے؟

جواب : اگر وہ نماز میں قتال کریں یا پیدل چلیں تو ان کی نماز باطل ہو گئی کیونکہ یہ عمل کثیر ہے



سوال : اگر دشمن اچانک آجائے اور وہ نہ  تو رکوع اور سجدہ کے ساتھ اور نہ ہی اشارہ کرنے کے ساتھ نماز پر قادر ہوں اس حال میں کہ جدا جدا ہوں یا امام کی اقتداء کرنے والے ہوں تو کیا کریں؟

جواب : وہ نماز کو مؤخر کریں جیسا کہ نبی پاک صلی اللّه علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب میں اسے مؤخر فرمایا اور وہ اسے قضا کریں جب قادر ہوں



Lesson 27


 کعبہ میں نماز کا بیان 



سوال : اللّٰہ نے کعبہ(یعنی) بیت حرام کو نمازوں میں مسلمانوں کیلۓ قبلہ بنایا ہے پس اگر کوٸ کعبہ کے اندر نماز پڑھے تو کیا اسکی نماز جاٸز ہوگی؟

جواب : کعبہ میں نماز (یعنی) فرض (نماز) اور نفل (نماز) جاٸز ہوتی ہے۔ 



سوال : اگر امام کعبہ کے اندر نماز پڑھے اور (مقتدیوں) میں سے کوٸ اپنی پشت امام کی پشت کی طرف کرے تو اس کی نماز جاٸز ہوگی؟ 

جواب : جی ہاں ! اس کی نماز جاٸز ہے۔ 






سوال: اور جو اُن میں سے اپنا چہر امام کے چہرے کی طرف کرے تو کیا اس کی نماز جاٸز ہو گی؟ 

جواب: جی ہاں! اُس کی نماز کراہت کے ساتھ جاٸز ہے 



سوال: اور جو اُن میں سے اپنی پشت امام کے چہرے کی طرف کرے تو کیا اُس کی نماز جاٸز ہوگی؟
جواب: امام سے آگے بڑھنے کی وجہ سے اس کی نماز جاٸز نہیں ہوگی۔ 



سوال: اور جب امام مسجد حرام میں کعبہ سے باہر نماز پڑھے اور لوگ اس کی نماز کی اقتدا کرتے ہوۓ کعبہ کے گرد حلقہ بنائيں توکیا اُن کی نماز جاٸز ہوگی؟ 

جواب: جی ہاں! ان کی نماز جاٸز ہے۔


سوال: یہ حکم عام ہے یا بعض مقتدی اس سے مستثنٰی ہیں؟ 

جواب: اس (حکم) سے وہ (شخص) مستثنٰی ہے جو اس جہت میں کعبہ کے زیادہ قریب ہو جس (جہت) کی طرف امام کھڑا ہے کیونکہ اس کی اقتدا صحیح نہیں کیونکہ یہ امام سے آگے بڑھ گیا ہے پس بہرحال جو (شخص) اس جہت کے غیر میں کعبہ کے زیادہ قریب ہو جس (جہت) کی طرف امام کا رخ ہے تو اس کی نماز جاٸز ہے۔ 



سوال: جس نے کعبہ کی چھت پر نماز پڑھی تو کیا اس کی نماز جاٸز ہوگی؟ 

جواب: جی ہاں! اس کی نماز جاٸز ہے لیکن تعظیم چھوڑنے کی وجہ سے مکروہ ہے۔



Sight  Of  Right 



No comments:

Powered by Blogger.