Fiqah Unit 3 Roze K Byan

 

روزے کا بیان


سوال : دین اسلام میں روزے کا حکم کیا ہے؟
جواب : ماہ رمضان کا روزہ ہر بالغ مسلمان پر فرض ہے مرد ہو یا عورت اللّه تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں

یٙآیُّھٙاالّٙذِیْنٙ اٰمٙنُوْا کُتِبٙ عٙلٙیْکُمُ الصِّیٙامُ کٙمٙا کُتِبٙ عٙلٙی الّٙذِیْنٙ مِنْ قٙبْلِکُمْ لٙعٙلّٙکُمْ تٙتّٙقُوْنٙ اٙیّٙامًا مٙعْدُوْٰدتً


”اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ 
ان پر فرض کیا گیا جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم 
پرہیزگار بن جاؤ 


 گنتی کے چند دن ہیں 
اور ماہ رمضان کے روزے کے علاوہ نفل کا روزہ ہے جس پر ثواب دیا جاتا ہے جیسا کہ باقی نفلی
 ( عبادات ) 
میں ثواب دیا جاتا ہے الا یہ کہ وہ روزے کی نزر مان لے تو اپنی نذر کو پورا کرنا اس پر واجب ہے۔








سوال : لغت اور شریعت کی رو سے روزے کا مطلب کیا ہے اور اس کا وقت ابتدا اور انتہا کے اعتبار سے کیا ہے ؟ 

جواب : روزہ لغت کی رو سے کسی چیز سے رکنا ہے اور شریعت کی رو سے روزے کی نیت کے ساتھ فجر ثانی کے طلوع سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے سے رکنا ہے۔



سوال : کیا کسی کو رخصت دی جاتی ہے کہ وہ رمضان میں روزہ نہ رکھے؟

جواب : جی ہاں ! جب وہ قصر کی مسافت کا مسافر ہو یا ایسا مریض ہو جسے اندیشہ ہو کہ اگر اس نے روزہ رکھا تو اس کی بیماری بڑھ جائے گی تو ان دونوں کے لئے جائز ہے کہ رمضان میں روزہ نہ رکھیں اور اس کے بعد قضا کریں لیکن مسافر کیلئے روزہ رکھنا افضل ہے بشرطیکہ روزہ رکھنے سے اسے نقصان نہ ہو۔



سوال : جب مسافر نے سفر میں یا بیمار نے اپنی بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھا پھر وہ دونوں مر گئے اس حال میں کہ وہ اپنے حال یعنی سفر اور بیماری پر تھے تو کیا ان پر بھی واجب ہوتا ہے؟

جواب : ان پر کچھ واجب نہیں ہوتا۔




سوال : اگر مریض تندرست ہو گیا یا مسافر مقیم ہو گیا تو کیا قضا ان کو لازمی ہوگی؟

جواب : جی ہاں ! قضا مریض پر صحت کے دنوں کی بقدر اور مسافر پر اپنے وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت میں اقامت کے دنوں کی بقدر واجب ہوگی ۔۔



سوال :  کیا مسافر یا مریض کے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کیلیئے رمضان میں روزہ نہ رکھنا جائز ہو؟

جواب : حاملہ اور دودھ پلانے والی کیلیئے جائز ہے کہ وہ رمضان میں روزہ نہ رکھیں جب وہ اپنے یا اپنے بچوں کے بارے میں ہلاکت کا اندیشہ کریں اور جو (روزہ) ان سے فوت ہو گیا اس کی قضا ان پر فرض ہوتی ہے



سوال :  کیا کسی پر واجب ہے کہ وہ رمضان میں روزہ نہ رکھے؟

جواب :  جی ہاں! حائضہ اور نفاس والی خاتون پر واجب ہے کہ روزہ نہ رکھیں بلکہ روزہ رکھنا ان کیلیئے جائز نہیں کیونکہ حیض اور نفاس روزے کے منافی ہیں



سوال : تو کیا جو روزہ ان سے فوت ہو گیا رمضان کے بعد اس کی قضا کریں؟

جواب  : جی ہاں! ان پر واجب ہے کہ ان دنوں کے روزے قضا کریں جن (دنوں) میں انہوں نے روزہ نہیں رکھا




سوال : کیا لوگوں میں ایسا شخص ہے جس پر روزہ چھوڑنے کی وجہ سے قضا واجب نہ ہوتی ہو اور فدیہ اس پر واجب ہوتا ہو؟

جواب : شیخ فانی کیلیئے جائز ہے کہ رمضان میں روزہ نہ رکھے اور عوض کے طور پر اپنے روزہ کا فدیہ سے




سوال : شیخ فانی سے کیا مراد ہے؟

جواب :  یہ وہ شخص ہے جو روزے پر قدرت نہیں رکھتا نہ رمضان میں اور نہ اس کے بعد اور اپنی زندگی کے آخر تک قضا پر قدرت نہیں رکھتا




سوال : فدیہ کیا ہے؟

جواب : فدیہ یہ ہے کہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائے جیسا کہ کفارات میں کھانا کھلایا جاتا ہے




سوال : جس نے سفر یا بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑ دیا اور قضا کے دن پا لیے پھر بھی روزہ قضا نہیں کیا اور موت کا وقت آگیا تو کیا کرے؟

جواب : اللّه تعالی سے استغفار کرے اور اس کی طرف رجوع کرے اور وصیت کرے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے ہر دن کے عوض مسکین کو گندم کا آدھا صاع یا کھجور کیا جو کا ایک صاع کھلائے



سوال : جب رمضان کے دن میں بچہ بالغ ہو یا کافر مسلمان ہو تو ان پر کیا لازم ہے؟

جواب : ان پر لازم ہے کہ وہ باقی ماندہ دن میں افطار والی چیزوں سے رکے رہیں اور رمضان کے وہ روزے رکھیں جو روزے باقی رہ گئے ہیں



سوال : کیا ان پر لازم ہے کہ اس دن کے عوض قضا کے طور پو روزہ رکھیں جس دن کا کچھ انہوں نے پایا؟

جواب : اس دن کی قضا ان پر واجب نہیں ہوتی



سوال : ماہ رمضان میں بیہوش کا حکم کیا ہے؟

جواب : جو رمضان کے دن میں بیہوش ہو جائے اس حال میں کہ اس نے روزے کی نیت کر رکھی ہو پس تحقیق اس پر اس دن کی قضا واجب نہیں ہوتی جس (دن) میں بیہوشی واقع ہوئی اور اس دن کے بعد جن(دنوں)میں وہ بیہوش رہا ان دنوں کے روزے قضا کرے



سوال :  جب کوئی دیوانہ رمضان شریف کے بعض حصے میں ہوشیار ہو جائے تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب : رمضان کا جو حصہ گزر چکا اس کی قضا کرے اور جو حصہ باقی رہ گیا اس کے روزے رکھے




سوال : جب دن کے کسی حصہ میں مسافر گھر آجائے اس حال میں کہ اس نے روزے کی نیت کی یا حائضہ پاک ہو جائے تو کیا کرے؟

جواب : ماہ رمضان کے احترام کے طور پر باقی ماندہ دن میں تینوں افطار والی چیزوں یعنی کھانے, پینے اور ہمبستری کرنے سے باز رہیں



کس کے ساتھ ماہ رمضان ثابت ہوتا ہے



سوال : ماہ رمضان کا روزہ کب واجب ہوتا ہے
 اور ماہ رمضان کیسے ثابت ہوتا ہے؟

جواب: نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھواور چاند دیکھ کر افطار کرو یعنی عیدالفطر مناؤ پس اگر چاند تم پر پوشیدہ ہو جائے تو شعبان کی گنتی تیس مکمل کرو۔
پس لوگوں پر واجب ہے کہ شعبان کی انتیسویں تاریخ میں چاند تلاش کریں پس اگر چاند دیکھ لیں تو روزہ رکھیں اور اگر چاند ان پر پوشیدہ ہو جائے تو شعبان کی گنتی تیس مکمل کریں پھر روزہ رکھیں۔



سوال: جب آسمان میں علت غبار ابر وغیرہ ہو اور ایک شخص گواہی دے کہ اس نے انتیس شعبان کو چاند دیکھا ہے تو کیا اس کی گواہی قبول کی جائے گی؟

جواب: اس وقت رمضان کا چاند دیکھنے میں ایک عادل مسلمان کی گواہی قبول کی جائے گی مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام۔



سوال: اگر آسمان میں علت نہ ہو اور ایک شخص یا دو شخص انتیس شعبان کو چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو ان کی گواہی کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس صورت میں گواہی قبول نہیں کی جائے گی یہاں تک کہ اتنی کثیر جماعت اسے دیکھے جن کی خبر سے یقینی علم حاصل ہو۔



سوال: یہ تفصیل ماہ رمضان کے ثبوت کے متعلق ہے پس عید کے چاند کے ثبوت میں آپ کا قول کیا ہے؟

جواب: جب آسمان میں علت ہو تو سوائے اس کے نہیں کہ امام اور قاضی فطر کے چاند میں دو مردوں یا ایک مرد دو عورتوں کی گواہی قبول کرے اور اگر آسمان میں علت نہ ہو تو سوائے اس کے نہیں کہ ایسی جماعت کی گواہی قبول کی جائے جن کی خبر سے یقینی علم حاصل ہو۔



سوال: ایک شخص نے رمضان کا چاند یا عید کا چاند دیکھا اور امام نے اس کی گواہی قبول نہیں کی تو وہ کیا کرے؟

جواب: جب یہ رمضان کے چاند میں واقع ہو تو تنہا روزہ رکھے اور اگر عید کے چاند میں واقع ہو تو لوگوں کے ساتھ روزہ رکھے اور اپنی رؤیت پر عمل نہ کرے۔





جو عمل روزے کو فاسد کردیتا ہے 

اور اس سے صرف قضا واجب ہوتی ہے 

یا قضا و کفارہ دونوں واجب ہوتے ہیں




سوال: روزہ کے مفسدات بیان کیجئے؟

جواب : روزہ فاسد ہوجاتا ہے جب بوسہ یا چھونے سے انزال ہوجائے یا کنکری یا لوہا یا گٹھلی نگل جائے یا فرج یا سرین کے ماسوا میں صحبت کرے اور انزال ہو جائے یا حقنہ لے یا ناک میں دوا چڑھائے یا اپنے کان میں دوا ٹپکائے یا پیٹ کے زخم یا دماغ کے زخم کو تر دوا لگائے پس وہ دوا اس کے پیٹ یا دماغ تک پہنچ جائے یا سحری کھائے اس حال میں کہ اس کا گمان ہو کہ فجر یعنی صبح صادق طلوع نہیں ہوئی یا افطار کرے اس حال میں کہ اس کا گمان ہو کہ آفتاب تحقیق غروب ہو چکا پھر جو اس نے گمان کیا اس کے خلاف ظاہر ہوگیا تو تحقیق اس کا روزہ ان تمام صورتوں میں فاسد ہوگیا اور اس وجہ سے قضا واجب ہوگی کفارہ نہیں۔



سوال :  اگر اپنے عضو تناسل کے سوراخ میں دوا ٹپکائے تو کیا روزہ فاسد ہوجاتا ہے؟

جواب: حضرت ابو حنیفہ و حضرت محمد رحمہ اللہ کے نزدیک اس عمل سے اس کا روزہ فاسد نہیں ہوتا اور حضرت ابو یوسف فرماتے ہیں کہ فاسد ہو جاتا ہے۔



سوال: کیا روزہ فاسد ہوجاتا ہے جب قے آئے یا بتکلف قے کرے؟

جواب: اگر اسے قے آئی تو روزا فاسد نہیں اور اس نے دانستہ منہ بھر کے قے کی تو اس پر قضا لازم ہے۔



سوال: کفارہ اور قضا اکٹھے کس عمل سے واجب ہوتے ہیں؟

جواب: جس نے دونوں راستوں فرج و سرین میں سے کسی ایک میں دانستہ صحبت کی یا اس نے ایسی شے کھا لی یا پی لی جس سے غذا حاصل کی جاتی ہے یا جس سے دوا کی جاتی ہے تو اس کا روزہ تحقیق فاسد ہوگیا اور اس ہر قضا و کفارہ لازم ہے۔



سوال: کفارہ کیا ہے؟

جواب:  وہ یہ ہے کہ رقبہ یعنی غلام یا لونڈی آزاد کرے پس اگر اس پر قادر نہ ہو تو دو ماہ لگاتار روزے رکھے جن میں نہ رمضان ہو اور نہ وہ دن جن میں روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور آپ عنقریب ان دنوں کو جان لیں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔پس اگر اس کی طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔



سوال: کیا رمضان کے علاوہ روزہ فاسد کرنے میں کفارہ ہے؟

جواب: رمضان کے علاوہ روزہ فاسد کرنے میں کفارہ نہیں اگرچہ رمضان کی قضا ہو۔



وہ عمل جو روزے کو فاسد نہیں کرتا



سوال: ان امور کو بیان کیجئے جن سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اور تحقیق وہ امور بعض اوقات روزہ دار کو پیش آتے ہیں؟

جواب: اگر روزہ دار نے بھول کر کھایا یا پیا یا ہمبستری کی اس کا روزہ فاسد نہیں ہوا اور اسی طرح وہ سویا پس اسے احتلام ہوگیا یا اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا پس انزال ہوگیا یا تیل لگایا یا پچھنا لگوایا یا سرمہ لگایا یا بوسہ دیا اور انزال نہیں ہوا تو تحقیق اس کا روزہ ان صورتوں میں فاسد نہیں ہوگا 



وہ عمل جو روزہ دار کے لیے مکروہ ہے


سوال: روزہ کے مکروہات بیان کریں؟

جواب: بوسہ روزہ دار کے لیے مکروہ ہے اگر اپنے بارے میں انزال وغیرہ سے اطمینان نہ ہو پس اگر مطمئن ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اسی طرح اپنے منہ سے کوئی چیز چکھنا اور مصطکی چبانا اور مسواک کے بغیر سفوف وغیرہ جیسی چیز سے دانتوں کو صاف کرنا اس کے لیے مکروہ ہے۔ اور عورت کے لیے مکروہ ہے کہ وہ اپنے بچے کے لیے کھانا چبائے جب کہ اسے اس سے چارہ کار حاصل ہو پس اگر وہ اس سے کوئی چارہ کار نہ پائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔





روزے میں نیت کی شرط ہونے کا بیان



سوال: آپ نے روزہ کو نیت کے ساتھ مقید کیا ہے جب آپ روزہ کی تعریف کر چکے تو نیت کا مطلب کیا ہے اور اس میں کیا تفصیل ہے؟

جواب : نیت وہ دل سے ادا کرنا ہے کہ میں اللّه تعالیٰ کے لیے فلاں روزہ رکھتا ہوں۔
پھر روزہ کئی قسم پر ہے



1
فرض روزہ اور وہ رمضان کا روزہ ہے
2
 نذر معین کا روزہ
3
نذر مطلق کا روزہ
رمضان کی قضا کا روزہ
5
اس قضا کا روزہ جو نفلی روزہ فاسد کرنے سے واجب ہوئی
6
کفارات کا روزہ 
7
نفلی روزہ



پس رمضان اور نذر معین کے روزے اور نفلی روزے میں جائز ہے کہ رات سے نیت کے ساتھ روزہ رکھے اور لیکن تبییت یعنی رات سے نیت کرنا شرط نہیں پس اگر اس نے نیت نہیں کی یہاں تک کہ صبح ہوگئی تو شرعی دن کے نصف سے پہلے کی نیت اسے کفایت کرے گی۔ پس بہرحال رمضان کی قضا  نذر مطلق  اور کفارات کے روزے اور اسی طرح اس نفل کے روزے کی قضا جس کو اس نے فاسد کیا تو تحقیق یہ ایسے روزے ہیں کہ صرف رات کی نیت کے ساتھ ان کا روزہ جائز ہے




سوال : متمتع اور قارن کے روزے جب کے وہ ہدی یعنی قربانی کے جانور پر قادر نہ ہوں تو رات سے نیت کرنے میں ان کا حکم کیا ہے؟

جواب : تمام کفارات کے روزوں کی طرح ان روزوں کی ادا میں شرط ہے کہ رات سے نیت کرے۔




سوال : آپ کے کلام سے ظاہر ہوا کہ نفل روزے کو جب فاسد کردے تو اس کی قضا واجب ہوتی ہے۔ اور ہم سے قول کی شرح اور توضیح چاہتے ہیں۔

جواب : اس کی شرح یہ ہے کہ نفل عبادت کرنے والا عمل شروع کرنے سے پہلے اپنی ذات کا امیر ہے چاہے نفل عبادت شروع کرے یا نہ کرے پس جب شروع کر دے تو اسے مکمل کرنا اس پر واجب ہوجاتا ہے پس اگر اس نے شروع کرنے کے بعد فاسد کردیا تو جو عمل شروع کر چکا اس کی قضا اس پر واجب ہوتی ہے۔ روزہ ہو یا نماز، حج ہو یا عمرہ۔






رمضان کے روزوں کی قضا کا بیان



سوال: کیا رمضان کے روزوں میں تتابع (یعنی تسلسل)  شرط ہے؟

جواب: یہ (یعنی تتابع)  اس میں شرط نہیں اگر چاہے متفرق طور پر ادا کرے اور اگر چاہے مسلسل قضا کرے



سوال: اگر اس نے (قضا) کو مؤخر کیا  یہاں تک کہ دوسرا رمضان داخل ہوگیا تو کیا کرے؟

جواب: پہلے موجودہ رمضان کے روزے رکھے اور اسکے بعد پہلے (رمضان) کی قضا کرے اور اس (تاخیر) کی وجہ سے اس پر فدیہ نہیں



سوال: ایک شخص مر گیا اس حال میں کہ اس کے ذمہ رمضان کی قضا ہے اور اسنے وصیت کی کہ اس کی طرف سے اس کے مال میں سے 'فدیہ' دیا جائے تو اس کے ولی پر کیا واجب ہوتا ہے؟

جواب : یہ وصیت میت کے تہائی مال میں نافذ ہوگی پس جب میت رمضان کی قضا جو اس کے ذمہ ہے اسکے فدیہ کی وصیت کرے تو اس کا ولی اس کی طرف سے ہر دن کے بدلہ میں مسکین کو گندم کا آدھا صاع یا جو کا ایک صاع یا کھجور کا ایک صاع کھلائے







اعتکاف کا بیان



سوال: اعتکاف کیا ہے اور اسکا حکم کیا ہے؟

جواب : اعتکافِ نیت کے ساتھ مسجد میں ٹھرنا ہے اور رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے.. اگر اہل محلہ میں سے کسی ایک شخص نے اعتکاف کیا تو ان کے  باقیوں سے  اعتکاف ساقط ہوجائےگا.. وگرنہ (وہ سب) سنت چھوڑنے والے ہونگے 


سوال : کیا اعتکاف مذکور کے ما سوا کوئی اعتکاف مشروع ہے.؟

جواب : جی ہاں! اسکے سوا مستحب اور واجب اعتکاف ہے. اور مستحب کا کم سے کم درجہ ایک گھڑی ہے جب بھی مسجد میں داخل ہو اور وہ اعتکاف کی نیت کرے تو معتکف ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد سے نکلے



 سوال : اعتکاف کب واجب ہوتا ہے ؟

جواب: جس نے اعتکاف کرنے کی نذر مانی تو جو اس نے نظر مانی اس سے اس نے اپنے اوپر اعتکاف واجب کیا اب وہ نذر پوری ہونے پر اس پر اعتکاف واجب ہوگا 



سوال: چند دنوں کے اعتکاف کی نذر مانی تو کیا اس پر ان دنوں کی راتوں کا اعتکاف بھی اسے لازم ہوگا ؟

جواب:  جی ہاں! ان دنوں کی راتوں کے ساتھ اسے اعتکاف کرنا لازمی ہوگا اور یہ کہ وہ دن مسلسل ہوں اگرچہ اس نے تسلسل کی شرط نہ لگائی ہو




سوال: کیا منذور اعتکاف میں روزہ رکھا جاتا ہے؟

جواب: جی ہاں.. روزہ اس میں  شرط ہوتا ہے



سوال: معتکف پر کیا حرام ہوتا ہے؟

جواب: ہمبستری اور اسکے دواعی جیسے چھونا بوسہ وغیرہ معتکف پر حرام ہوتے ہیں  پس اگراس نے رات کو یا دن کو سھوا یا عمدا اس میں سے کوئی کام کیا یا چھونے سے انزال ہوگیا تو اسکا اعتکاف فاسد ہوگیا اور اس پر قضا لازم ہے. 



سوال: کیا مسجد سے نکلنا معتکف کے لیے جائز ہے ؟

جواب: صرف انسانی ضرورت کے غرض سے  نکلے مثلا: پیشاب پائخانہ وغیرہ اور اگر وہ بغیر عذر کے بغیر (مسجد) سےایک گھڑی  کیلئیےنکلا تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللّه کے نزدیک اسکا اعتکاف فاسد ہوگیا  اور آپکے صاحبین رحمھما اللّه فرماتے ہیں کہ اعتکاف فاسد نہیں ہوتا یہاں تک کہ مسجد سے نکلنا آدھے دن سے زیادہ ہو 



سوال: اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جس میں جمعہ ادا نہیں کیا جاتا اور جمعہ کا دن آگیا تو کیسے  نماز جمعہ ادا کرے ؟

جواب: جامع مسجد کی طرف چلا جائے اور نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد اپنی اعتکاف گاہ کو لوٹ آئے 



سوال: معتکف کے لیئے کیا جائز کیا گیا ہے؟

جواب:  اسے رخصت دی گئی ہے کہ وہ مسجد میں کھائے اور پیے اور اس میں سوئے اور اسے رخصت دی گئی ہے کہ وہ مسجد میں سامان لائے بغیر خرید و فروخت کرے



سوال: ہم معتکفین کو دیکھتے ہیں کے وہ گفتگو نہیں کرتے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ گفتگو اعتکاف کے منافی ہے. فقہاء,اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟


جواب: گفتگو اعتکاف کےمنافی نہیں الّا یہ کہ وہ اچھی گفتگو کرے اور بری گفتگو ہر حال میں ممنوع ہے اور خاموشی اس خیال سے کہ وہ اعتکاف کا حصہ ہے مکروہ ہے





نفل روزوں کا بیان


سوال: کیا ماہِ رمضان کے علاوہ (زمانہ) میں روزے مشروع کے گئے ہیں؟

جواب: ماہِ رمضان کے روزے فرض ہیں اور اسکے ما سوا روزے نفل ہیں اگر روزہ  رکھا تو اس پر ثواب دیا جائےگا ان شاء اللہ تعالی



سوال: کیا بعض دنوں میں نفل روزوں سے منع کیا گیا ہے ؟

جواب: جی ہاں!  سال میں پانچ دن ایسے ہیں جن میں روزہ سے منع کیا گیا ہے اور وہ درج ذیل ہیں


(1)
 فطر کے دن کا روزہ
(2) 
 عید الاضحی کا روزہ
(3,4,5)
 اور اسکے بعد تین دنوں کے روزے اور انکا نام ایام تشریق رکھا جاتا ہے



سوال: کیا بعض (نفل) روزوں کو بعض پر فضیلت حاصل ہے؟ 

جواب: جی ہاں! بعض احادیث میں بعض (نفل) روزوں کی فضیلت وارد ہوئی ہے 
پس تحقیق حضرت عائشہ رضی اللّه عنہا  نے روایت فرمایا ہےکہ "رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے


اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللّه  عنہ سے روایت کیا ہے آپ  فرماتے ہیں کہ رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوموار اور جمعرات کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں پس میں محبوب رکھتا ہوں کے میرا عمل پیش کیا جائے اس حال میں کہ میں روزہ دار ہوں


اور حضرت ابو ھریرہ رضہ سے (روایت کیا گیا ہے) کہ  آپ فرماتے ہیں کہ" رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم حضر اور سفر میں ایام بیض (یعنی تیرہویں, چودہویں اور پندرہویں تاریخ)  کو افطار نہیں کرتے تھے (یعنی روزہ رکھتے
 اور حضرت ابو قتادہ رضی اللّه عنہ سے روایت فرمایا ہے کہ  "رسول اللّه صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللّه  تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ (یعنی نو ذوالحجہ) کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد (کے گناہ)  مٹا دیتا ہے 


 اور حضرت ابو  ایوب انصاری رضی اللّه عنہ سے (روایت کیا گیا) ہے کہ  رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر شوال کے (چھے) روزے رکھے اس کے پیچھے لگائے تو یہ زمانہ بھر روزہ رکھنےکی طرح ہے




زکوۃ کا بیان


سوال : لغت اور شریعت کی رو سے زکاۃ کا مطلب کیا ہے؟

جواب : زکاۃ ( کا مطلب) لغت کی رو سے  پاکیزگی اور بڑھوتری ہے اور شریعت میں مالک بنانے والے سے ہر اعتبار سے منفعت  کاٹنے کے ساتھ صاحب نصاب کا اللّٰه تعالیٰ کیلئے مسلمان فقیر کو مال کے ( خاص) حصہ کا مالک بنانا ہے جس 
( حصہ) 
کو شارع نے اس کے مال میں معین( ومقرر) کیا ہے۔



سوال: اسلام میں زکاۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب: زکاۃ اللّٰه تعالیٰ کے فرائض میں سے ایک فرض اور اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے ۔ اللّٰه تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا حکم فرمایا ہے پس فرمایا


وَاَقِیْمُو الصَّلٰوۃَ وَاٰ تُوا الزَّکٰوۃَ
(ترجمہ) 
اور نماز قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو۔

اور جس نے اسکی فرضیت سے انکار کیا پس وہ کافر ملتِ اسلام سے خارج ہے۔

_____________


   کس پر زکاۃ فرض ہوتی ہے



سوال: زکاۃ کس پر فرض ہوتی ہے؟

جواب: وہ آزاد ،مسلمان،بالغ،عاقل پر فرض ہے جب کہ وہ مکمل ملک کے اعتبار سے کامل نصاب کا مالک ہو اور اس( نصاب) پر سال گزر جاۓ۔


سوال: کامل نصاب کیا ہے؟

جواب: وہ چاندی کے دو سو درہم (١) یا سونے کے بیس مثقال(٢)یا رائج سکوں سے ان دونوں میں سے کسی ایک کا مالک ہونا یا تجارت کے مال کا مالک ہونا ہے جو ان دونوں میں سے کسی ایک کی قیمت کو پہنچ جاۓ۔



سوال: صاحب نصاب شخص پر قرض ہے تو کیا زکاۃ اس پر فرض ہے؟

جواب: اس میں دیکھا جاۓ،اگر اس کا قرض اسکے تمام مال کو گھیرے ہوۓ ہے تو اس پر زکاۃ نہیں اور اگر اس کا مال قرض سے زیادہ ہے تو زکاۃ اس (مال) میں واجب ہوگی جو قرض کی مقدار سے زیادہ ہو جاۓ جبکہ زائد (مال ) نصاب کو پہنچ جاۓ۔



سوال: کیا تجارت کے مال میں زکاۃ ہے؟ 

جواب: جی ہاں!  تجارت کا مال دونوں نصابوں یعنی چاندی کے دو سو درہم اور سونے کے بیس مثقال میں سے کسی ایک ( نصاب) کو پہنچ جائے تو اس میں زکاۃ واجب ہوگی۔




سوال:آپ کے قول " اور اس پر سال گزر جاۓ" کا مطلب کیا ہے؟


جواب: اس کا مطلب یہ ہے کہ آزاد بالغ مسلمان جب نصاب یا زیادہ کا مالک ہو جائے تو اپنے مال میں سے زکاۃ نکالنا اس پر فرض ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس( نصابی مال)  پر مکمل قمری سال گزر جاۓ اور اس میں شمسی سال کو شمار نہیں کیا جاتا۔



سوال:  رہائش کے گھروں ،بدن کے کپڑوں اور گھر کے سازو سامان کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ 

جواب: رہائشی گھروں، بدن کے کپڑوں ، گھریلو سازو سامان، سواری کے جانوروں ،خدمت کے غلاموں اور استعمال کے ہتھیاروں میں زکاۃ نہیں۔



سوال: اگر یہ چیزیں تجارت کے لیے ہوں تو کیا ان میں زکاۃ ہے؟

جواب:  جی ہاں! زکاۃ ان میں فرض ہوتی ہے جبکہ یہ نصاب کو پہنچ جائیں۔



سوال: سونا اور چاندی یا تجارت کے سامان میں زکاۃ واجب ہوئ پس جو( چیز) واجب ہوئ اس نے اس کی قیمت دے دی تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب: جی ہاں! زکاۃ میں قیمتوں کا دینا جائز ہے۔



سوال: جو اپنا تمام مال صدقہ کر دے اس حال میں کہ وہ زکاۃ کی نیت کرنے والا نہ ہو تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب: زکاۃ  کا فرض اس سے ساقط ہو گیا۔



سوال: جب مال زکاۃ واجب ہونے کے ساتھ ہلاک ہو جاۓ  تو مال کا مالک کیا کرے؟

جواب: جب تمام مال زکاۃ واجب ہونے کے بعد ہلاک ہو جاۓ تو زکاۃ ساقط ہو جاۓ گی پس (زکاۃ) کی ادائیگی فرض نہیں ہوگی۔ اور اگر کچھ مال ہلاک ہو گیا تو اس کے حساب سے زکاۃ ساقط ہوگی۔یہ (حکم) تب ہے جب مال ہلاک ہو جاۓ پس بہرحال جب وہ مال ہلاک کر دے تو زکاۃ ساقط نہیں ہو گی۔
______________





سونے اور چاندی کی زکاۃ کا بیان



سوال : چاندی کی کتنی مقدار پر زکاۃ فرض ہوتی ہے؟

جواب: جب وہ چاندی کے دو سو درہموں

٢٠٠درہم :٥ء٥٢ تولہ یعنی ٣٦ء٦١٢ گرام

(اوزان شرعیہ مع تتمہ) 
 کا مالک ہو جاۓ اور ان پر سال گزر جاۓ تو زکاۃ اس میں فرض ہو جاتی ہے پس وہ اپنے مال میں سے چالیسواں حصہ ادا کرے اور وہ ہر دو سو درہموں میں سے پانچ درہم ہیں۔



سوال: جب دراہم دو سو درہموں  سے زیادہ ہو جائیں تو جو( مقدار) زیادہ ہوئ اس کی زکاۃ کیسے ادا کرے؟ 

جواب: حضرت ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ زیادت میں کچھ نہیں  یہاں تک کہ  وہ چالیس درہموں کو پہنچ جاۓ پس جب چالیس درہم دو سو درہموں سے زائد ہو جائیں تو زائد میں پانچ درہموں کے ساتھ ایک درہم ہے پھر چالیس درہموں میں ایک درہم ہے اور حضرت ابو یوسفؒ و حضرت محمدؒ فرماتے ہیں کہ دو سو( درہموں) سے جو زائد ہو جاۓ پس اس کی زکاۃ اس کے حساب سے ہے زیادت کم ہو یا زیادہ۔



سوال: سونے کی کتنی مقدار میں زکاۃ فرض ہوتی ہے؟

جواب: جب وہ سونے کے بیس مثقال {٢٠ مثقال:٥ء٧ تولہ يعنى ٤٨ء ٨٧ گرام( اوزان شرعیہ مع تتمہ)} کا مالک ہو اس پر سال گزر جاۓ تو ان میں سے آدھا مثقال ادا کرے  اور وہ بھی چالیسواں حصہ ہے پھر زائد میں ہر چار مثقال میں دو قیراط{٨ء١رتى يعنى ٧ء٢١٨ ملی گرام( اوزان شرعیہ مع تتمہ)}ہیں اور چار مثقال سے کم زائد میں زکاۃ نہیں اور یہ حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہے اور آپکے صاحبینؒ فرماتے ہیں کہ بیس مثقال میں آدھا مثقال ہے اور جو بیس( مثقال) سے زائد ہو جاۓ اس میں زکاۃ اسکے حساب سے واجب ہوتی ہے۔



سوال: جب سونے یا چاندی سے  زیور یا برتن ڈھالا جاۓ تو کیا اس میں زکاۃ فرض ہوتی ہے؟

جواب: زکاۃ سونا اور چاندی میں اور ہر ایسی (شے) جو ان سے ڈھالی جاۓ یعنی انکی ڈلیوں،انکے زیورات اور انکے برتنوں میں فرض ہوتی ہے۔اور اس میں مستعمل  وغیر( مستعمل) برابر ہیں۔



سوال: جب سونا یا چاندی میں کچھ کھوٹ ہو تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب: جب چاندی کے سکہ پر غالب چاندی ہو تو وہ چاندی کے حکم میں ہے اور جب غالب کھوٹ ہو تو وہ سامان کے حکم میں ہے اور کھوٹا سونا چاندی کی مانند ہے اس( حکم) میں جو (ابھی) ہم ذکر کر چکے ہیں۔





سوال: ایک شخص کہ اسکے پاس نہ سونا ہے اور نہ چاندی لیکن وہ ان نوٹوں کا مالک ہے جن کو حکومتی بینک جاری کرتے ہیں تو کیا ان میں زکاۃ ہے؟

جواب: جی ہاں! ان میں زکاۃ ہے جبکہ وہ دونوں نصابوں یعنی سونے اور چاندی کے نصابوں میں سے کسی ایک ( نصاب ) کو پہنچ جائیں کیونکہ وہ رائج اثمان کی طرح ہیں( کہ) ہر چیز ان کے ساتھ خریدی جاتی ہے اور ان کے ساتھ تجارت کی جاتی ہے اور جو ان ( نوٹوں) کو بینک میں لاۓ حکومت اس کیلئے ضامن ہوتی ہے کہ اسے وہ نقود ( یعنی دراہم و دنانیر) واپس کرے یہ نوٹ جن( نقود) کے قائم مقام ہیں۔


سامان کی زکاۃ کا بیان



سوال: تجارت کے سامان میں زکاۃ کا حکم کیا ہے ؟

جواب: زکاۃ تجارت کے سامان میں واجب ہے جب کہ اس کی قیمت چاندی یا سونے کے نصاب کو پہنچ جائے۔اس کے ساتھ( سامان) کی قیمت لگاۓ جو ان دونوں میں سے کسی ایک کے نصاب کو پہنچ جائے اور وہ فقیروں و مسکینوں کے لیے زیادہ نفع مند ہو یہ حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہے اور حضرت ابو یوسف فرماتے ہیں کہ اس کے ساتھ قیمت لگاۓ جس کے ساتھ اسے خریدا ہے پس اگر اسے چاندی کے ساتھ خریدا ہے تو ( چاندی) کے ساتھ اس کی قیمت لگاۓ  اور اگر اسے سونے کے ساتھ خریدا ہے تو سونے کے ساتھ اسکی قیمت لگاۓ۔پس اگر سونے اور چاندی کے علاوہ کے ساتھ خریدا ہے تو شہر میں غالب نقد کے ساتھ قیمت لگاۓ۔اور حضرت محمدؒ فرماتے ہیں کہ ہر حال میں شہر میں غالب نقد کے ساتھ قیمت لگاۓ ۔

 سونے چاندی اور تجارت کے سامان کی زکاۃ

سوال: اپنے مال کی زکاۃ کیسے ادا کرے؟

جواب: اللّٰه تعالیٰ نے اس کے مال میں  زکاۃ کی جو مقدار فرض فرمائ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ چالیسواں حصہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اس ( شخص) کو دے جس کو ( زکاۃ) دینا جائز ہے ایسی نیت کے ساتھ جو ادا کے وقت ملی ہوئ ہو یا ایسی نیت کے ساتھ جو فرض مقدار علیحدہ کرنے کے وقت ملی ہوئ ہو۔



سوال: فرض مقدار علیحدہ کرنے کے وقت ( نیت کے) ملنے کا مطلب کیا ہے؟

جواب: جب وہ سال کے آخر میں اپنے مال کا حساب کرے تو فرض مقدار جدا کرے اور نیت کرے کہ جب بھی زکاۃ کا مستحق ملے گا وہ اسے دے دے گا۔تو یہ نیت ادا میں بھی معتبر ہے۔پس جب بھی کوئ فقیر یا مسکین آیا اور اس نے اسے جدا کۓ ہوۓ مال میں سے دے دیا تو اس کے ساتھ زکاۃ ادا ہو جاۓ گی اگرچہ مستحق کو دینے کے وقت نیت مستحضر نہ ہو۔



سوال: ایک صاحب نصاب شخص نے دوران سال مال حاصل کیا تو کیا اس کی زکاۃ دے؟

جواب: جب دوران سال مال حاصل کرے تو اسے اس مال کی جنس کے ساتھ ملا دے اور اس کی اس( مال) کے ساتھ زکاۃ ادا کرے 



سوال: کیاسال مکمل ہونے سے پہلے زکاۃ دینا جائز ہے؟

جواب: اگر صاحب نصاب سال گزرنے سے پہلے زکاۃ ادا کرے تو یہ جائز ہے اور اس کی زکاۃ ادا ہو گئ۔



سوال: نصاب کے مالک شخص نے سال کے آخر میں اپنے مال کی زکاۃ ادا کی لیکن آئندہ سال کے دوران اس کا مال کم ہو گیا تو کیا اس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے؟

جواب: جب نصاب سال گزرنے سے پہلے مکمل ہو جائے تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی اور نصاب جب سال کی دونوں جانبوں میں کامل ہو تو اس کے درمیان اس کی کمی زکاۃ کو ساقط نہیں کرتی ۔



سوال: ایک شخص سامان کا مالک ہے اس میں تجارت کرتا ہے اور وہ ( سامان) نصاب کو نہیں پہنچتا۔اور اس کے پاس اس کے ساتھ سونا یا چاندی ہے تو کیا اس پر زکاۃ واجب ہوگی؟

جواب: سامان کی قیمت کو سونے یا چاندی یا دونوں کے ساتھ ملایا جاۓ پس جب مجموعہ نصاب کو پہنچ جاۓ تو اس میں زکاۃ واجب ہوگی۔



سوال:ایک شخص کے پاس بیس مثقال سے کم سونا اور دو سو درہم سے کم چاندی ہے تو کیا اس پر زکاۃ ہے؟

جواب:جی ہاں! سونے کو چاندی کے ساتھ قیمت ( کے اعتبار) سے ملایا جاۓ یہاں تک کہ نصاب مکمل ہو جاۓ اور یہ حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہے اور آپکے صاحبینؒ فرماتے ہیں کہ ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ قیمت ( کے اعتبار) سے نہ ملایا جاۓ بلکہ اجزاء ( کے اعتبار ) سے ملایا جاۓ۔



سوال: ایسی مثال بیان کیجئے جس سے ثمرۂ اختلاف ظاہر ہو جاۓ؟

جواب: ایک شخص کے پاس سو درہم چاندی اور پانچ مثقال سونا ہے جس کی قیمت سو درہم ہے تو
 ( حضرت ابو حنیفہؒ) 
کے نزدیک اس پر زکاۃ واجب ہوگی( صاحبینؒ) کے نزدیک نہیں کیونکہ ( حضرت ابو حنیفہؒ) کے نزدیک نصاب قیمت کی حیثیت سے تحقیق مکمل ہو گیا اور( صاحبینؒ) کے نزدیک اجزاء کی حیثیت سے مکمل نہیں ہوا ۔اور اگر ایک شخص کے پاس سو درہم اور دس مثقال ہیں جن کی قیمت سو درہم ہے تو بالاجماع اس پر زکاۃ واجب ہوگی کیونکہ نصاب دونوں جہتوں سے مکمل ہو گیا ہے ۔






جانوروں کی زکاۃ کا بیان 


سوال : کیا سونے، چاندی، اور تجارت کے سامان کے سوا میں زکاۃ واجب ہوتی ہے؟

جواب :  جی ہاں! سوائم میں زکاۃ واجب ہوتی ہے۔



سوال: سوائم کیا ہے؟

جواب: یہ وہ چوپاۓ ہیں جو جنگل میں چرتے ہیں مثلاً اونٹ،گاۓ،اور بکری اور ( ان میں) زکاۃ کے واجب ہونے کیلئے شرط لگائی جاتی ہے کہ سال کے اکثر ( حصہ) میں چرنے پر قناعت کریں پس اگر انہیں آدھا سال یا زیادہ ( عرصہ گھر پر) چارہ دے تو اس میں زکاۃ نہیں۔



سوال: ان جنسوں میں کیا( چیز) واجب ہوتی ہے؟

  جواب  ان میں واجب مقدار مختلف ہوتی ہے اور وہ مقدار ( بھی مختلف ہوتی ہے) جس میں زکاۃ واجب ہوتی ہے



سوال: ان چوپایوں کی زکاۃ میں آپکا قول کیا ہے جو کام کرتے ہیں،بوجھ اٹھاتے ہیں اور انہیں گھر پر چارہ دیا جاتا ہے؟

جواب: کام کرنے والے ،بوجھ اٹھانے والے اور (گھر پر) چارہ کھانے والے (جانوروں) میں زکاۃ نہیں ہے۔


   گاۓ بیل کی زکاۃ کا بیان


سوال: گاۓ بیل کی زکاۃ میں واجب کی مقدار بیان کیجیئے؟

جواب: تیس گاۓ بیل سے کم میں زکاۃ نہیں پس جب وہ تیس ہو جائیں اس حال میں کہ وہ چرنے والے ہوں اور ان پر سال گزر جاۓ تو ان میں ایک تَبِیع(جو دوسرے سال میں داخل ہو جاۓ) یا تَبِیعَه ہے اور چالیس میں  ایک مُسنّ( جو تیسرے سال میں داخل ہو جاۓ) مُسِنّہ ہے پس جب وہ چالیس سے زائد ہو جائیں تو حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک زیادت میں اس کے بقدر واجب ہوگا ساٹھ تک۔پس ایک میں مسنّہ کا چالیسواں حصہ اور دو میں مُسِنّہ کا بیسواں حصہ اور تین میں چالیس حصوں کے تین حصے ( واجب ہوں گے) اور حضرت ابو یوسفؒ و حضرت محمدؒ فرماتے ہیں کہ زیادت میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ ساٹھ کو پہنچ جائیں پس ان میں دو تبیع یا دو تبیعہ ہوں گے اور ستر میں ایک مسنّہ اور ایک تبیع ہیں اور اسّی میں دو مسنّے ہیں اور نوے میں تین تبیعے ہیں اور سو میں دو تبیعے اور ایک مسنّہ ہیں اور اسی ( اصول) پر نصاب ہر دس میں تبیع سے مُسِنّہ کی طرف بدلتا رہے گا۔



سوال: واجب کی مقدار میں بھینسوں کا حکم کیا ہے؟

جواب: بھینس اور گاۓ بیل اس ( حکم) میں برابر ہیں۔


_________________________


   بکریوں کی زکاۃ کا بیان


سوال: بکریوں کی زکاۃ میں تفصیل بیان کیجئے؟

جواب: چالیس بکریوں سے کم میں زکاۃ نہیں پس جب وہ چالیس ہو جائیں اس حال میں کہ وہ چرنے والی ہوں اور ان پر سال گزر جاۓ  تو ان میں ایک بکری ہے ایک سو بیس تک پس جب ایک زائد ہو جاۓ تو ان میں دو بکریاں ہیں دو سو تک پس جب ایک زائد ہو جاۓ تو ان میں تین بکریاں ہیں۔پس جب وہ چار سو کو پہنچ جائیں تو ان میں چار بکریاں ہیں پھر ہر سو میں ایک بکری ہے۔



سوال: کیا بھیڑ،دنبہ اور بکری کا حکم مختلف ہوتا ہے؟

جواب: دونوں برابر ہیں حکم ان میں مختلف نہیں ہوتا۔


_________________________

گھوڑوں کی زکاۃ کا بیان


سوال: کیا گھوڑوں میں زکاۃ ہے؟

جواب: جب گھوڑے چرنے والے ہوں  نر و مادہ اور ان پر سال گزر جاۓ تو ان کا مالک بااختیار ہے اگر چاہے ہر گھوڑے کی طرف سے ایک دینار دے اور اگر چاہے اسکی قیمت لگاۓ اور ہر دو سو درہموں میں سے پانچ درہم دے اور حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک تنہا نر (گھوڑوں) میں زکاۃ نہیں 



سوال: کیا گھوڑوں کی زکاۃ میں اختلاف ہے؟

جواب: جی ہاں! حضرت ابو یوسفؒ و حضرت محمدؒ نے اس ( مسئلہ) میں حضرت ابو حنیفہؒ کی مخالفت کی ہے اور فرمایا کہ گھوڑوں میں زکاۃ نہیں۔



سوال: کیا خچروں اور گدھوں میں زکاۃ واجب ہوتی ہے؟

جواب: خچروں اور گدھوں میں کچھ( واجب) نہیں الا یہ کہ وہ تجارت کیلئے ہوں تو ان میں وہ ( مقدار زکاۃ) واجب ہوگی جو تجارت کہ مالوں میں واجب ہوتی ہے.

_________________________


متفرق مسائل



سوال: اونٹنی اور گاۓ کی اولاد میں حضرت ابو حنیفہؒ کا قول کیا ہے؟


جواب: حضرت ابو حنیفہؒ وحضرت محمدؒ کے نزدیک اونٹنی کے بچوں ،بکری کے بچوں اور گاۓ کے بچوں میں زکاۃ نہیں الا یہ کہ ان کے ساتھ بڑے ہوں اور حضرت ابو یوسفؒ کے نزدیک ان میں سے ایک ان میں واجب ہے۔



سوال: جب زکاۃ وصول کرنے والا جاۓ تاکہ جانوروں کی زکاۃ لے تو کیسے کرے جب وہ ان کے پاس اس ( جانور) کو نہ پاۓ جو ان کے مالوں میں واجب ہو؟

جواب: ادنیٰ( جانور) لے اور باقی (دام) لے یا اعلیٰ ( جانور) لے اور زائد ( دام) لوٹاۓ۔




سوال: زکاۃ وصول کرنے والا عمدہ مال لے یا گھٹیا؟

جواب: نہ یہ لے اور نہ وہ اور سوائے اس کے نہیں درمیانہ (مال) لے۔


فائدہ: اونٹوں کی زکاۃ میں نر جیسے اِبْنِ مَخاضْ ( دینا) جائز نہیں الا یہ کہ مادہ کی قیمت کے طور پر ( ہو) بخلاف گاۓ بیل اور بکریوں کے کیونکہ ان میں واجب ہونے والے جانور میں نر اور مادہ( دونوں دینا)  جائز ہے۔




سوال: جب نصاب باقی رہ جاے اور عَفْو( یعنی دو نصابوں کے درمیان کا عدد) ہلاک ہو جاۓ تو جو باقی رہ گیا اس کے بقدر تمام موجود میں زکاۃ واجب ہے یا تمام مال سے جو ہلاک ہو گیا اس کے حساب سے( زکاۃ) کم ہو جاۓ گی؟

جواب: حضرت ابو حنیفہؒ و حضرت ابو یوسفؒ کے نزدیک اس ( مسئلہ) میں اصل یہ ہے کہ زکاۃنصاب میں واجب ہے عَفْو میں نہیں پس جب عفو ہلاک ہو جاۓ  اور نصاب باقی رہ جاۓ تو ( شیخینؒ) کے نزدیک تمام واجب باقی رہے گا اور حضرت محمدؒ و حضرت زفرؒ فرماتے ہیں کہ جو ہلاک ہو گیا اس کے حساب سے واجب ساقط ہوگا۔



سوال: اس اجمال سے ثمرۂ اختلاف واضح نہیں ہوا پس اس کی شرح کیجیئے؟

جواب: ہم اس کے لیے ایک مثال وضع کرتے ہیں پس اپنے ظاہر اور اپنے باطن کے ساتھ مکمل توجہ کیجیئے.
ایک شخص کے پاس نو اونٹ تھے اور ان پر سال گزر گیا پھر ان میں سے چار ہلاک ہو گۓ پس اس پر باقی (اونٹوں) میں کامل بکری ہے جیسا کہ اس ( صورت) میں واجب ہوتی ہے جب اونٹ پانچ سے زائد نہ ہوں اور ہلاک ہونے والی ( تعداد)  کو عفو یعنی اس زائد کی طرف پھیرا جاۓ گاجس میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ دس کو پہنچ جائیں  یہ حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک اور حضرت ابو یوسفؒ کے نزدیک ہے اور حضرت محمدؒ ،حضرت زفرؒ کے نزدیک باقی( اونٹوں) میں بکری کے پانچ تسع(٥/٩) کی ادا اس پر واجب  ہے پس انہوں نے واجب کو نو اونٹوں پر تقسیم کیا اور ہلاک ہونے والی ( تعداد) کو تمام مال کی طرف پھیرا  اور ہلاک ہونے والی ( تعداد) کے حساب سے تمام ( مال) سے واجب کو ساقط کیا۔
اور دوسری مثال یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس اسّی بکریاں تھیں پس سال مکمل ہونے کے بعد چالیس ہلاک ہو گئیں تو حضرت ابو حنیفہؒ و حضرت ابو یوسفؒ کے نزدیک اس پر باقی ( بکریوں) میں ایک کامل بکری ہے اور ( حضرت محمدؒ و حضرت زفرؒ) کے نزدیک آدھی بکری ہے اور اگر ان میں سے  ساٹھ ہلاک ہو گئیں تو شیخینؒ کے نزدیک اس پر آدھی بکری ہے اور ( حضرت محمدؒ و حضرت زفرؒ) کے نزدیک بکری کی چوتھائی ہے پس غور کیجیۓ۔





کھیتوں اور پھلوں کی زکاۃ کا بیان


سوال: کیا کھیتوں اور پھلوں میں زکاۃ ہے؟

جواب: جی ہاں! ان میں زکاۃ ہے جو پیداوار اس کا عشر( دسواں حصہ)  یا نصف عشر( بیسواں حصہ) نکالا جاۓ ان پانیوں کے اختلاف کے مطابق جن کے ساتھ سیراب کیا گیا ہے۔



سوال: کیا اس میں نصاب ہے؟

جواب: حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس میں نصاب نہیں پس ہر وہ ( چیز) جو زمین پیدا کرے تھوڑی ہو یا زیادہ اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہے مگر لکڑی ،بانس اور گھاس کہ ( حضرت ابو حنیفہؒ) کے نزدیک ان میں زکاۃ نہیں اور حضرت ابو یوسفؒ و حضرت محمدؒ فرماتے ہیں کہ زمین کی پیداوار میں زکاۃ نہیں مگر اس( پیداوار) میں جس کا پھل باقی رہنے والا ہو بشرطیکہ وہ پانچ وَسق( بحساب مثقال پانچ من اڑھائ سیر ٨٠ تولہ کے سیر سے۔بحساب درهم ٥من پونے پانچ سیر ٨٠ تولہ کے سیر سے (اوزان شرعیہ)   )  کو پہنچ جائے اور ان کے نزدیک سبزیوں میں زکاۃ نہیں۔



سوال: وسق کیا ہے؟

جواب: وہ ناپنے کا آلہ ہے اور وہ ساٹھ صاع (بحساب درہم ٢٧٣تولہ یعنى ١٨٤٢٧٢ء٣ کلو گرام اور بحساب مثقال ٢٧٠تولہ (اوزان شرعیہ مع تتمہ)) کی گنجائش رکھتا تھا۔



سوال: عشر اور نصف( عشر) کے وجوب میں کیا تفصیل ہے؟

جواب: جب جاری پانی سے سیراب کیا جاۓ یا بارش اسے سیراب کرے تو اس میں عشر ہے اور جب چڑسہ یا رہٹ یا سانڈنی سے سیراب کیا جاۓ تو دونوں قولوں ( کے اختلاف)  پر اس میں نصف عشر ہے۔



سوال: جب پیداوار اس میں سے ہو جو وسق نہ کی جاۓ یعنی وسقوں کے زریعہ نہ ناپی جاۓ جیسے زعفران اور روئ تو اس میں زکاۃ واجب ہونے میں صاحبین کا قول کیا ہے ؟ 

جواب: حضرت ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ جب اس کی قیمت ایسی ادنی درجہ کی ( پیداوار) کے پانچ وسق کی قیمت کو پہنچ جاۓ جو وسق کے تحت داخل ہوتی ہے  تو اس میں عشر واجب ہوگا اور حضرت محمدؒ فرماتے ہیں کہ عشر واجب ہوگا جب پیداوار پانچ عدد اعلیٰ اس مقدار کو پہنچ جاۓ جس کے ساتھ اس قسم ( کی چیزوں) کا اندازہ کیا جاتا ہے پس روئ میں پانچ گون اور زعفران میں پانچ سیر معتبر ہوں  گے



سوال: کیا شہد میں عشر واجب ہوتا ہے؟

جواب: حضرت ابو حنیفہ کے نزدیک جب شہد عشری زمین سے لیا جاۓ تو اس میں عشر واجب ہوگا (شہد )کم ہو یا زیادہ ہو اور حضرت ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ ( شہد) میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ دس مشکوں تک پہنچ جاۓ  اور حضرت محمدؒ فرماتے ہیں کہ اس میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ پانچ فرق کو پہنچ جائے۔



سوال: فرق کی مقدار کتنی ہے؟ 

جواب: وہ چھتیس رطل( ٣٤تولہ ڈیڑھ ماشہ یعنی ٠٣٤ء٣٩٨  گرام ( اوزان شرعیہ مع تتمہ)) عراقی کا ہوتا ہے ۔



سوال: جب کوئ چیز خراجی زمین سے پیدا ہو تو کیا اس میں عشر واجب ہے؟

جواب: عشر اس میں واجب نہیں ہوگا بلکہ اس میں خراج پر قناعت کی جاۓ گی۔



سوال: کیا عشر یا نصف ( عشر) ادا کرنے سے پہلے اخراجات مثلاً مزدوروں کی اجرت اور بیلوں وغیرہ کہ خرچوں کو وضع کیا جاۓ ؟

جواب: اخراجات وضع نہ کیۓ جائیں بلکہ زمین کی تمام پیداوار سے واجب ( مقدار) عشر ہو یا نصف ( عشر) کا نکالنا واجب ہوتا ہے





زکاۃ کے مصارف کا بیان


سوال: زکاۃ کے مصارف بیان کیجئے؟

جواب : تحقیق اللّٰه تعالیٰ نے اپنی معزز کتاب میں اس کے مصارف بیان فرماۓ ہیں پس اللّٰه تعالیٰ فرماتے ہیں

 اِنّمَاالصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِیْلِ

پس یہ آٹھ قسمیں ہیں  

(١)
الْفُقَرَآء 

 (٢)
الْمَسٰکِیْنِ

(٣)
اَلْعَامِلُوْنَ عَلَیْھَا۔ 

(٤)
وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْب  

(٥)
الرِّقَابِ

(٦)
الْغَارِمُوْن

(٧)
فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه

(٨)
ابْنُ السَّبِیْلِ



سوال: فقیر کون ہے؟

جواب: یہ وہ ہے جس کے پاس معمولی چیز ہو اور اس کا مال نصاب کو نہ پہنچے۔



سوال: مسکین کی تعریف کیا ہے؟

جواب: یہ وہ ہے جس کے پاس کوئ چیز نہ ہو۔



سوال: عاملین علیھا سے کیا مراد ہے؟

جواب: یہ وہ ہیں جن کو امام اس  زکاۃ کے حاصل کرنے ( کا کام) سپرد کرتا ہے جو اللّٰه تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض فرمائ ہے۔پس یہ ان کے پاس جاتے ہیں اور زکاۃ وصول کرتے ہیں اور اپنے اوقات کو اس (کام) میں صرف کرتے ہیں پس امام ان کو ان کے عمل کی مقدار کے مطابق زکاۃ کے اموال میں سے دیتا ہے۔



سوال: اللّه تبارک و تعالی کے فرمان وَفِي الرِّقَاب کا مطلب کیا ہے؟ 

جواب: وہ یہ ہے کہ مکاتبوں کی ان کی گردنوں کے چھڑانے میں مدد کی جائے



سوال: غَارِم کون ہیں؟ 

جواب: یہ وہ ہیں جسکو قرض لازم ہوگیا اور وہ اپنے مال میں سے اپنے قرض کے لئے وفا 
(حقوق واجبہ کے پورا کرنے کے لائق مال ) 
نہ پائے 



سوال: اللّه تبارک و تعالی کے فرمان فِي سَبِيل اللّه سے کیا مراد ہے 
جواب:وہ غازیوں سے کٹ جانے والے ہیں یعنی جو اللّه کے راستے میں جہاد کیلیے نکلے پھر وہ اپنی جماعت سے کٹ گئے  اس حال میں کہ وہ نفقہ
 ( خرچہ اور وسائل جہاد )
 کے محتاج ہیں



سوال:  اِبْنُ السَّبِيْل سے کون ہے ؟ 

جواب: یہ وہ مسافر ہے جسکے پاس سفر  میں مال نہ ہو اگرچہ وہ اپنے وطن میں غنی مال دار ہو  



سوال: مُؤَلَّفَةُالقُلُوْب کے بارے میں سوال باقی رہ گیا ؟ 

جواب :  یہ وہ ( لوگ ) ہیں نبی کریم صلی اللّه علیہ وسلم  انکی دلجوئی کے لیے انہیں زکاة کے مال میں سے دیتے تھے تاکہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور وہ بعض قبائل کے سردار ہوتے تھے انکے اسلام لانے سے انکی قوم کے اسلام لانے کی امید کی جاتی تھی اور جب اللّه  تبارک و تعالی نے اسلام کا غلبہ عطا فرمایا اور ان سے بے نیاز کردیا تو انکو زکوة دینے کا حکم ساقط ہوگیا پس نبی کریم صلی اللّه علیہ وسلم کے زمانے کے بعد انہیں زکاة کے اموال نہیں دیے جاتے



سوال: آپ نے بیان فرمایا ہے اس ( بنا) پر سات قسمیں باقی رہ گئی جنکو زکاة دینا جائز ہے تو کیا مالک زکاة ہر قسم کو زکاة دے یا بعض اقسام پر اکتفا کرنا اسکے لئے جائز ہے  ؟ 

جواب: زکاة دینے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک قسم پر اکتفا کرے ایک فرد ہو یا زیادہ یا دو قسموں اور  اس سے زائد کو ادا کرے 



سوال: کیا کافر مسکین یا فقیر کو زکاة  کا مال دینا جائز ہے ؟ 

جواب: اسکو زکاة کا مال دینا جائز نہیں جو ملت اسلام سے خارج ہو برابر ہے کہ ذمی ہو یا غیر 
( ذمی )



سوال : کیا جائز ہے کہ زکوة کے مال  میں سے میت کو کفن دیا جائے یا اسکے ساتھ مسجد یا مدرسہ یا پل یا عام (لوگوں ) کے گزرنے کیلئے راستہ بنایا جائے ؟

جواب: یہ (کام ) زکوة کے مال سے جائز نہیں پس اگر اس نے ان (کاموں ) میں(زکوة) خرچ کی تو دوبارہ زکوة  ادا کرے اور ضابطہ اسمیں یہ ہے کہ زکوة ادا کرنے کے لیے اسکو مالک بنانا ضروری ہے جو( زکوة ) کا مستحق ہے اور میت کو کفن دینے اور مذکورہ(چیزوں ) میں سے مسجد وغیرہ بنانے میں تملیک نہیں


سوال : اگر زکوة کا مال اسکو دیا جو مدرسہ کے امور کا متولی ہے اسکا حکم کیا ہے؟ 

جواب : اگر مدرسہ کے منتظم کو زکوة کا مال دیا اور اسے وکیل بنایا کہ طلبہ علوم میں سے فقراء ومساکین پر خرچ کرے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ منتظم انکو مالک بناے  پس انکے لے کھانا مباح کرنے سے اور مدرسہ کی عمارت بنانے سے اور مدرسین یا تنخواہ داروں کو انکی ماہانہ تنخواہوں میں(زکوة) کا مال  دینے سے لوگوں کی زکوة ادا نہیں ہوگی



سوال: اگر اس نے زکوة کے مال سے رَقبًه ( غلام یا لونڈی ) خریدی اور اسے آزاد کر دیا تو کیا اس ( عمل ) سے اسکی زکوة ادا ہوجائے گی؟ 

جواب :  نہیں 



سوال: اگر زکوة دینے والے نے اپنے فقراء رشتہ داروں کو اپنی زکاة  دی تو کیا یہ جائز ہے؟ 

جواب: رشتہ دار دو قسم کے ہیں  : ایک قسم کہ انکے اور زکاة دینے والے کے درمیان ولادت کی رشتہ داری ہے جیسے والدین، اجداد( دادا،نانا) ،جدات
(  نانی ،دادی) 
اولاد اور 
احفاد( پاتاپوتی،نواسہ،نواسی) اور ایک قسم کہ اسکے اور انکے درمیان ولادت ( کی رشتہ داری ) نہیں بھائی، بہنیں اور جیسے چچے ،پھوپھیاں اور جیسے ماموں، خالائیں اور ان سب کی اولاد _ پس پہلی قسم کی زکاة دینا جائز نہیں  پس اگر اس نے اپنی زکاة کا مال اپنے ولد یا ولد کے ولد کو دی لڑکا ہو یا لڑکی اگرچہ نیچے تک ہویا اپنے باپ یا اپنی ماں یا اپنے اجداد یا اپنی جدات کو ( زکاة ) دی تو اسکی زکاة ادا نہیں ہوگی  
بہرحال دوسری قسم ! ان کو زکاة دینا جائز ہے اور انکو (زکاة ) دینے میں دو اجر ہیں زکاة ادا کرنے کا اجر اور صلہ رحمی کا اجر۔



سوال: یہ (لوگ زکاۃ)  نہیں لیتے جب ان سے کہا جاۓ یہ زکاۃ کا مال ہے تو   انہیں (زکاۃ)دینے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: اس کے اظہار کی ضرورت نہیں بلکہ جب آپ نیت کریں کہ آپ اپنے مال کی زکاۃ ادا کر رہے ہیں اور ان پر ظاہر کریں کہ یہ ہدایہ ہے تو یہ ( عمل)  زکاۃ ادا کرنے سے کفایت کرے گا بشرطیکہ یہ( لوگ) زکاۃ کے مستحق ہوں اس( بنا) پر جو اقسام کے بیان میں گزر چکا اور وہ بنو ہاشم میں سے نہ ہوں۔ 



سوال: کیا زکاة ادا ہوجاتی ہے جب وہ( زکاة ) اپنی بیوی کو دے یا بیوی اپنے شوہر کو دے؟ 

جواب: حضرت ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس سے زکاة ادا نہیں ہوتی اور آپکے صاحبینؒ فرماتے ہیں کہ اگر بیوی نے اپنے شوہر کو زکاة کا مال دیا تو یہ اسے کفایت کرے گا



سوال: اگر مال دار کو یا مال دار کے ولد کو زکاة دی تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب: مالدار یعنی نصاب کے مالک کو زکاۃ دینا جائز نہیں( نصاب) جس مال سے ہو اور مالدار کے ولد کو  ( زکاۃ ) دینا جائز نہیں جبکہ وہ نابالغ بچہ ہو اور مالدار کے بڑے بچے ( یعنی بالغ) کو ( زکاۃ) دینا جائز ہے  جبکہ وہ فقیر ہو نصاب کا مالک نہ ہو۔



سوال: کیا فقراء و مساکین میں سے ایسا ( شخص)  ہے جسے زکاۃ دینا جائز نہیں؟

جواب: جی ہاں! بنو ہاشم کو زکاۃ دینا جائز نہیں اگرچہ وہ فقراء و مساکین  ہوں اور وہ ( یعنی بنو ہاشم) اولاد علی،آل عباس ،آل جعفر،آل عقیل اور آل حارث بن عبد المطلب رضی اللّٰه تعالیٰ عنہم ہیں۔



سوال:  اگر یہ ( حضرات) ضروتمند ہوں تو کیسے ان کی مدد کرے اور ان کی نصرت کرے؟

جواب: زکاۃ کے مال کے بغیر اور صدقاتِ واجبہ کے بغیر ان سے تبرع کرے۔



سوال: ایک شخص نے اپنی زکاۃ کا مال  ایسے شخص کو دیا جس کے بارے میں اس نے خیال کیا کہ وہ زکاۃ کا مصرف ہے پھر ظاہر ہوا کہ وہ مالدار یا ہاشمی یا کافر ہے یا اس نے اندھیرے میں فقیر کو ( زکاۃ کا مال) دیا پھر ظاہر ہوا کہ وہ اس کا باپ یا اس کا بیٹا ہے تو کیا اس سے اس کی زکاۃ ادا ہو جاۓ گی؟

 جواب: یہ( مال) اس کی زکاۃ سے ادا ہو جاۓ گا اور( زکاۃ) دوبارہ دینا اس کے زمہ نہیں۔یہ حضرت ابو حنیفہؒ و حضرت محمدؒ کے نزدیک ہے اور حضرت ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ ان تمام صورتوں میں دوبارہ دینا اس پر لازم ہے۔



سوال: اگر اس نے ایسے شخص کو( زکاة)  دی جسکو زکاة کا مستحق سمجھا پھر علم ہوا کہ وہ اسکا غلام یا اسکا مکاتب ہے تو ہمارے تینوں امام ( امام ابو حنیفہؒ ، امام ابو یوسفؒ ، اورامام محمدؒ ) اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ 

جواب: اگر یہ واقع ہوا تو ان سب کے قول میں اسے کفایت نہیں کیا



سوال: جب کوئی شخص تندرست کمانے والا نصاب کا مالک نہ ہو تو کیا اسکو زکاة دینا جائز ہے؟ 

جواب: جی ہاں! جائز ہے 



سوال: اگر صاحب زکاة نے اپنی زکاة کا مال جس (شہر ) میں وہ رہتا ہے اس شہر کے علاوہ کسی شہر کی طرف منتقل کیا تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب: ضابطہ اس بارے میں یہ ہے کہ ہر قوم کی زکاة انہیں میں تقسیم کی جائے اور وہ اپنا مال دوسرے شہر کی طرف نہ نکالے اور اگر اس نے یہ کیا تو مکروہ ہوگا الا یہ کہ وہ زکاة اپنے رشتہ داروں کی طرف ایسی قوم کی طرف منتقل کرے جو اسکے شہر والوں سے زیادہ محتاج ہیں





Sight  Of  Right 





No comments:

Powered by Blogger.