Hajj Series by '' Sight Of Right ''
حج اور قربانی کا بیان
تکبیرات اور ان کا تعارف
وَاذۡکُرُوا اللّٰهَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ
اوراللّٰه تعالی کا ذکر معلوم دنوں میں کرو
ایام معلومات سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں اور «أيام المعدودات» سے مراد ایام تشریق ہیں ۔ ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللّٰه عنہما ان دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ ان بزرگوں کی تکبیر ( تکبیرات ) سن کر تکبیر کہتے اور محمد بن باقر رحمہ اللّٰه نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے
بخآری 969 سورۃ البقرۃ 203 سورۃ الحج 28
ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی فضیلت، قرآن و سنت کی روشنی میں
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ذی الحجہ کے(ابتدائ) دس دنوں سے بڑھ کر کوئ دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو، ان ایام میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلتہ القدر کے قیام کے برابر ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ یعنی مجھے فجر اور دس راتوں کی قسم ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ بحوالہ بخاری فرماتے ہیں: اس سے مراد ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ان دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کو عمل صالح بہت پسند ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کیا جہاد فی سبیل اﷲ سے بھی زیادہ یہ دن پسند ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں! یہ دن جہاد فی سبیل اﷲ سے بھی بہتر ہیں سوائے اس شخص کے جو اپنے مال اور جان کو لے کر نکلے اور کسی چیز کو واپس لے کر نہ آئے
(بحوالہ بخاری)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ان دس دنوں سے بڑھ کر اور سب سے زیادہ محبوب اللہ تعالیٰ کو کوئی اور دن نہیں ہیں لہٰذا تم ان دنوں میں کثرت سے تسبیح، تحمید اور تہلیل کیا کرو
(بحوالہ طبرانی)
سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان ایام عشرہ میں سخت ترین محنت سے عمل صالح فرماتے تھے۔ (بحوالہ دارمی)۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق اس عمل صالح کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان دنوں میں حج کا اجتماع منعقد ہوتا ہے اور حج اسلام کے اراکین میں شامل ہے۔ سال کے سب سے بہترین 10 دن
أَيَّامُ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ أَفْضَلُ مِنْ أَيَّامِ الْعَشْرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَاللَّيَالِي الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ مِنْ رَمَضَانَ أَفْضَلُ مِنْ لَيَالِي عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ
عشرہ ذی الحجہ کے دن رمضان کے آخری عشرے سے افضل ہیں، اور رمضان کے آخری عشرے کی راتیں عشرہ ذی الحجہ سے افضل ہیں
[ابن تيمية (رحمه الله) || مجموع الفتاوی 25/287]
مستحب اعمال
کثرت سے نوافل ادا کرنا۔ نمازوں میں مکمل پابندی کرنا، کثرت سجود سے قربِ الٰہی کا حاصل کرنا
(صحیح مسلم)
نفل روزے کا اہتمام کریں۔ کیونکہ اعمال صالحہ میں روزے شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ذی الحجہ کی تاریخ کو روزے رکھتے تھے یوم عاشور، محرم اور ہر مہینے تین روزے رکھنا بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا
(بحوالہ ابوداؤد، مسند احمد)
کثرت سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا بھی ان ایام کا ایک معروف فعل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے مطابق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہم بازاروں میں جاتے تھے، خود بھی تکبیرات کہتے اور لوگ بھی تکبیریں بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے خیمے میں بلند آواز سے تکبیریں کہتے تو اہل مسجد اس کو سن کر جواباً تکبیریں کہتے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نمازوں کے بعد، گھر میں، آتے جاتے، پیدل چلتے ہوئے تکبیریں کہتے تھے۔ افسوس صد افسوس کہ ان ایام میں یہ عظیم سنت ختم ہو گئی ہے۔ تکبیر ان الفاظ سے کہی جاتی تھی
اَﷲُ اَکْبَر اَﷲُ اَکْبَراَﷲُ اَکْبَرکَبِیْرًا
اور
اَللّٰهُ اَکْبَرُ ، اَللّٰهُ اَکْبَرُ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ﷲُ وَﷲُ اَکْبَرُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ
یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’میں اُمید کرتا ہوں کہ یومِ عرفہ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘ (صحیح مسلم) لیکن یہ روزہ حاجیوں کے لئے نہیں ہے۔
قربانی کا دن مسلمانوں کی عظیم الشان قربانی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان کی نشاندہی کرتا ہے۔ تمام علماء کے مطابق سال کا افضل ترین دن قربانی کا دن ہے۔ سنن ابوداؤد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اِرشاد ہے کہ قربانی کا دن افضل ترین دن ہے
Lesson 1
حج کا بیان
سوال: حج لغت اور شریعت کی رو سے کیا ہے؟
جواب: وہ لغت کی رو سے عظیم الشان شے کی طرف توجہ کرنا ہے اور شریعت کی رو سے وہ مخصوص زمانہ میں مخصوص فعل کے ساتھ مخصوص جگہ کی زیارت کرنا ہے اور آپ عنقریب یہ سب کچھ مفصل طور پر جان لیں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔
سوال: اسلام میں حج کا حکم کیا ہے؟
جواب: یہ اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور جو اس کی فرضیت کا انکار کرے وہ ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہےاللّه تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں
وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا
ترجمہ: اور اللّه تعالیٰ کے لیے لوگوں کے ذمہ بیت اللہ کا حج کرنا ہے یعنی جو شخص اس کی طرف سبیل یعنی کرایہ اور زاد سفر کی طاقت رکھتا ہو۔
سوال: حج کس پر فرض ہوتا ہے؟
جواب: حج راستہ کے امن، زادسفر اور اجرت کے ساتھ یا ملک کے ساتھ سواری پر قدرت کی شرط کے ساتھ تندرست عقلمند بالغ آزاد مسلمانوں پر فرض ہے اور شرط لگائی جاتی ہے کہ یہ مال رہائشی گھر سے، ضروریات سے اور گھر واپس آنے کے وقت تک اہل خانہ کے خرچہ سے زائد ہو۔
سوال: کیا حج کی طرف عورت کے نکلنے کے لیے اس سے زائد شرط ہے جو آپ نے ذکر فرمایا؟
جواب: جی ہاں! عورت کے لیے شرط لگائی جاتی ہے کہ وہ محرم یا شوہر کے ساتھ نکلے اور اس کیلیئے جائز نہیں کہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے بغیر حج کرے جبکہ اس عورت اور مکہ کے درمیان اتنی مسافت ہو جس میں نماز میں قصر کی جاتی ہے یا اس سے زائد مسافت ہو۔
Lesson 2
حج کے مہینے
سوال : حج کے مہینے کون سے ہیں؟
جواب : یہ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔
سوال: حج کے افعال پانچ دنوں میں ادا کیے جاتے ہیں تو شوال اور ذوالقعدہ کو حج کے مہینوں میں سے کیوں بنایا گیا؟
جواب : اسلئے کہ بعض احکام اس کے متعلق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ عمرہ کا احرام باندھے اور شوال کے چاند سے پہلے طواف کے اکثر چکر لگائے تو وہ متمتع نہیں ہو گا اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر شوال کے چاند سے پہلے حج کا احرام باندھا تو یہ مکروہ ہے۔
سوال : مثلا شوال یا ذوالقعدہ میں عمرہ کا احرام باندھا اور عمرہ کے افعال ادا کیے پھر اپنے وطن چلا گیا اور لوٹا اس حال میں کہ حج کا سفر کرنے والا ہے تو اس کے تمتع کا حال کیا ہے؟
جواب : اس صورت میں وہ متمتع نہیں رہا بشرطیکہ وہ ہدی لے جانے والا نا ہو اور اس پر دم تمتع لازم نہیں کیونکہ تمتمع ایک سفر میں دو عبادات (حج و عمرہ) کا نفع اٹھانا ہے پس جب وہ عمرہ کے بعد اپنے وطن لوٹ گیا اور دوسری مرتبہ ( مکہ و مکرمہ) واپس آیا تو ایک سفر میں (دونوں عبادتوں) کا نفع نہیں اٹھایا۔
حج کے فرائض، واجبات اور سنتوں کا بیان
سوال: حج کے فرائض کیا ہیں اور کتنے ہیں؟
جواب: حج کے فرائض تین ہیں۔
1
احرام باندھنا
2۔
عرفہ میں وقوف کرنا
3۔
طواف زیارت کرنا
سوال: حج کے واجبات کیا ہیں؟
جواب : وہ درج ذیل ہیں
1
نحر کے دن یعنی 10 ذولحجہ کو فجر یعنی صبح
صادق کے طلوع کے بعد مزدلفہ میں وقوف کرنا۔
2۔
صفا اور مروہ کے درمیان سعی۔
3۔
کنکریاں مارنا۔
4۔
آفاقی کا الوداعی طواف کرنا۔
5۔
سر کے بال مونڈنا یا چھانٹنا۔
6۔
غروب آفتاب تک عرفہ میں وقوف کو دراز کرنا۔
7۔
قارن اور متمتع کا قربانی کا جانور ذبح کرنا۔
8۔
مفرد کے لیے کنکریاں مارنے اور سر کے بال مونڈنے کے درمیان ترتیب رکھنا۔
9۔
قربانی کے دنوں میں سے کسی دن میں طواف زیارت ادا کرنا۔
10۔
حرم میں سر کے بال مونڈنا یا چھانٹنا ۔
11۔
اور قربانی کے دنوں میں سر کے بال مونڈنا یا چھانٹنا۔
سوال: حج کی سنتیں کیا ہیں؟
1
مفرد آفاقی اور اسی طرح قارن کا طواف قدوم کرنا۔
2۔
ایسے طواف میں رمل کرنا اور اضطباع کرنا جس کے بعد صفا و مروہ کے درمیان دوڑنے کی نیت کرے۔
3۔
ترویہ کے دن یعنی 8 ذولحجہ کو منیٰ کو جانا اور آنے والی رات میں منیٰ میں شب باشی کرنا۔
4۔
عرفہ کے دن یعنی 9 ذولحجہ کو آفتاب بلند ہونے کے بعد منیٰ سے عرفات کو نکلنا۔
5۔
نحر کے دن یعنی 10 ذولحجہ کی شب کو مزدلفہ میں شب باشی کرنا۔
6۔
عرفات میں غسل کرنا۔
7۔
قربانی کے باقی دنوں کی راتوں کو منیٰ میں شب باشی کرنا۔
مواقیت اور احرام کا بیان
سوال: ان مواقیت کو بیان کیجئے جن سے انسان کا احرام باندھے بغیر گزرنا جائز نہیں؟
جواب: یہ پانچ میقات ہیں نبی کریم ﷺ نے جن کو مقرر فرمایا ہے پس مدینہ والوں کے لیے میقات ذُوالْحُلَیْفَهُ ہے، عراق والوں کے لیے ذات عِرُق ہے، شام والوں کے لیے جُحفَهُ ہے، نجد والوں کے لیے قرُن ہے اور یمن والوں کے لیے یَلَمُلَمُ ہے اور یہ مواقیت مذکورہ علاقوں والوں کے لیے اور اس کے لیے ہیں جو ان مواقیت سے گزرے۔
سوال: یہ مواقیت اس شخص کے لیے مقرر کیے گئے ہیں جو ان سے باہر ہے اور ان مواقیت سے گزرنا چاہتا ہے۔ اور جو شخص نفس مواقیت میں رہتا ہے اور جو مواقیت اور حرم کے درمیان رہتا ہے اور جو نفس حرم میں رہتا ہے اس کے بارے میں سوال باقی رہ گیا؟
جواب: جو شخص مواقیت میں رہتا ہے وہ ان مواقیت سے احرام باندھے اور جو مواقیت اور حرم کے درمیان رہتا ہے پس اس کا میقات حل ہے اور حل مواقیت اور حرم کے درمیان کا علاقہ ہے اور جو حرم میں رہائش پذیر ہے تو اس کا میقات حج میں حرم اور عمرہ میں حِل ہے۔
سوال: کیا ان مواقیت سے احرام کو مقدم کرنا جائز ہے؟
جواب: جی ہاں! یہ جائز ہے بلکہ مقدم کرنا افضل ہے بشرطیکہ حج کے مہینوں میں احرام باندھے اور اپنے بارے میں ممنوعات کے ارتکاب سے مطمئن ہو۔
سوال: اگر ان مواقیت سے احرام کو مؤخر کردیا تو اس کا حکم کیا ہے؟
جواب: یہ جائز نہیں۔ پس اگر ان مواقیت سے گزرنے کے بعد احرام باندھا تو دم یعنی بکری اس پر واجب ہو گئی۔
سوال: ایک شخص مکہ کی طرف سفر کرتا ہے اور اس کے راستہ میں مذکورہ مواقیت میں سے کوئی میقات واقع نہیں تو وہ کہاں سے احرام باندھے؟
جواب: وہ اس میقات کے برابر سے احرام باندھے جس میقات کے برابر وہ گزرے۔
سوال: احرام کیا ہے؟
جواب: وہ تلبیہ کے ساتھ حج یا عمرہ کی نیت کرنا ہے۔
سوال: کیا احرام کا کوئی مسنون طریقہ ہے؟
جواب: جی ہاں! جب احرام باندھنا چاہے تو غسل کرے یا وضو کرے اور غسل افضل ہے اور دو نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنے اس حال میں کہ وہ سلے ہوئے نا ہوں۔ ان میں سے ایک کے ساتھ تہبند باندھے اور دوسرے کے ساتھ چادر اوڑھے اور خوشبو لگائے اگر اس کے پاس ہو اور دو رکعت نماز پڑھے اس حال میں کہ اپنا سر چھپائے ہوئے ہو اور ان دو رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد اپنا سر ننگا کردے اور حج کی نیت کرتے ہوئے زبان سے کہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْحَجَّ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَتَقَبَّلْہُ مِنِّیْ
ترجمہ: اے اللہ! میں حج کرنا چاہتا ہوں پس مجھے اس کی توفیق دیجیے جا اسے میرے لیے آسان کیجیے اور میری طرف سے اسے قبول فرمائیے۔ پھر تلبیہ کہے اور تلبیہ یوں کہے
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ..... لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ
إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكُ لَا شَرِيْكَ لَكَ
ترجمہ: میں بار بار حاضر ہوں اے اللہ! میں بار بار حاضر ہوں میں بار بار حاضر ہوں آپ کا کوئی شریک نہیں میں بار بار حاضر ہوں۔ بےشک تمام حمد، نعمت اور ملک آپ ہی کے ہیں آپ کا کوئی شریک نہیں۔
اور ان کلمات میں سے کچھ کمی نہ کرے پس اگر ان میں اضافہ کرے تو جائز ہے۔ پس جب وہ تلبیہ کہہ چکے تو تحقیق وہ محرم ہوگیا پس چاہے کہ وہ ممنوعات احرام سے پرہیز کرے۔
سوال: جب عورت حیض والی یا نفاس والی ہو تو کیا وہ حج کا احرام باندھ لے یا خون کے بند ہونے کا انتظار کرے؟
جواب: وہ خون کے بند ہونے کا انتظار نہ کرے بلکہ صفائی کے لیے غسل کرے بشرطیکہ اسے غسل کرنے کی جگہ مل جائے اور اپنے سر میں کنگھی کرے پھر دوگانہ احرام کے بغیر احرام باندھے پس حج یا عمرہ کی نیت کرے اور تلبیہ کہے پس جب وہ نیت کر چکےاور تلبیہ کہہ چکے تو تحقیق وہ محرمه ہوگئی پس جب وہ مکہ میں داخل ہو تو خون کے بند ہونے کا انتظار کرے پس جب وہ پاک ہو جائے تو غسل کرے
اور طواف کرے۔
ناخن تراشنے کا بیان
سوال : مُحْرِمْ کے لیے ناخن تراشنے کا حکم کیا ہے؟
جواب : اگر ایک مجلس میں دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کے ناخن یا ایک ہاتھ یا ایک پاؤں کے ناخن تراشے تو دم واجب ہوگا اور اگر دونوں ہاتھوں یا دونوں پاؤں میں سے ہر ایک کے ناخن متفرق مجالس میں تراشے تو مجالس کے متعدد ہونے کے مطابق جزا متعدد ہوگی۔
سوال : اگر پانچ ناخن سے کم تراشے تو اس کا حکم کیا ہے؟
جواب : اگر ایک عضو سے پانچ ناخن سے کم تراشے تو صدقہ واجب ہوگا۔
سوال : اور اگر ایک عضو سے سے زائد کے پانچ ناخن تراشے مثلاً ایک ہاتھ کے دو ناخن دوسرے ہاتھ کے دو ناخن اور ایک پاؤں کا ایک ناخن تراشا تو اس کا حکم کیا ہے؟
جواب : حضرت ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس صورت میں بھی صدقہ واجب ہوگا۔
بال مونڈنے کا بیان
سوال : جب مُحْرِمْ بدن کے بال مونڈے تو اس کے ذمہ کیا واجب ہوتا ہے؟
جواب : جب مُحْرِمْ اپنا سر یا اپنی داڑھی یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی چوتھائی مونڈے تو اس کے ذمہ دم ہے اور چوتھائی سے کم میں صدقہ ہے اور اگر اپنی بغل یا اپنی ناف (کے بال) مونڈے تو اس ذمہ دم ہے اور (سر وغیرہ کے بال) چھانٹنے کا حکم دم اور صدقہ کے واجب ہونے میں مونڈنے کا حکم ہے اور اگر کسی زائل کرنے والی شے کے ساتھ بالوں کو زائل کیا یا ان کے نوچا یا دانتوں کے ساتھ ان کو اکھیڑا تو یہ (عمل) بھی مونڈنے کے حکم میں ہے۔
سوال : اگر گردن کے پچھنے لگانے کی جگہ مونڈے تو اس کے ذمہ کیا ہے؟
جواب : اگر گردن کے پچھنے لگانے کی جگہ مونڈے تو حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کے ذمہ دم ہے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبین (یعنی حضرت یوسف رحمۃ اللہ علیہ و محمد رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ اس کے ذمہ صدقہ ہے۔
سوال : اس (سلسلہ) میں عورت کا حکم کیا ہے؟
جواب : یہ (یعنی عورت) جزا کے واجب ہونے میں مرد کی مانند ہے پس اگر اس نے حلال ہونے (یعنی احرام سے نکلنے) کے وقت سے پہلے پوروں کی مقدار اپنی بغل یا اپنی ناف (کے بال) مونڈے یا اپنے سر کی چوتھائی یا (اس سے) زیادہ (حصہ) کے بال لیے تو اس کے ذمہ دم واجب ہوگا اور چوتھائی سے کم میں صدقہ واجب ہوگا۔
فائدہ : اس (سلسلہ) میں جزا کے واجب ہونے میں کوئی فرق نہیں جبکہ وہ خود مونڈے یا اس کا غیر اس کے حکم سے یا اس کے حکم کے بغیر مونڈے اس حال میں کہ (وہ) راضی یا مجبور، جاہل یا مخطی، عامد یا ناسی (ہو)۔
ان ممنوعات کے ارتکاب میں معذور کے حکم کا بیان
سوال : اگر عذر کے ساتھ سلا ہوا لباس پہنا یا خوشبو لگائی یا سر یا چہرے کو چھپایا یا بال مونڈے یا ناخن تراشے تو اس کا حکم کیا ہے؟
جواب : جب مُحْرِمْ عذر کی وجہ سے جیسے بخار جو اسے پہنچے یا مثلاً گرمی یا سردی کی شدت کی وجہ سے یا سر میں درد یا (سر) میں جوؤں کی کثرت کی وجہ سے ان ممنوعات میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرے تو ہر ایسی جگہ میں جس میں دم واجب ہوتا ہے اسے اختیار دیا جائے گا کہ وہ حرم میں بکری ذبح کرے یا چھ مسکینوں پر گندم کے تین صاع یا کشمش یا کھجور یا جو کے چھ صاع صدقہ کرے، ہر مسکین کو گندم کا آدھا صاع یا اس کے علاوہ (جو وغیرہ) کا ایک صاع دے یا تین دن روزہ رکھے اور اس حکم میں مالدار اور فقیر برابر ہیں اور اگر عذر کی وجہ سے ایسے ممنوع (فعل) کا ارتکاب کرے جس میں صدقہ واجب ہوتا ہے تو اسے (ان دو عملوں) کے درمیان اختیار دیا جائے گا کہ وہ آدھا گندم کا صاع صدقہ کرے یا کامل دن روزہ رکھے۔
قربانی کا بیان
سوال : اسلام میں قربانی کا حکم کیا ہے؟
جواب : ہر مسلمان آزاد عاقل دولت مند مقیم پر واجب ہے پس غلام ، فقیر مسافر پر واجب نہیں۔
سوال : اس واجب کی ادائیگی کیلئے کیا ذبح کرے؟
جواب : ایک شخص کی جانب سے ایک بکری کفایت کرتی ہے اور اگر سات نفوس ایک اونٹ یا گائے میں شریک ہوں تو یہ ان میں سے ہر ایک کی قربانی کی کفایت کرے گا بشرطیکہ ان میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور یہ کہ ان میں سے ہر ایک قربت الہیہ کا ارادہ کرے پس اگر ان میں سے کوئی ایک گوشت کا ارادہ کرے تو ان میں سے کسی سے کفایت نہیں کرے گا۔
سوال: قربانی کے وقت کی ابتداء کیا ہے؟
جواب : نحر کے دن یعنی دس زوالحجہ کو فجر ثانی یعنی صبح صادق کے طلوع سے قربانی کا وقت داخل ہوتا ہے مگر تحقیق شان یہ ہے کہ شہر والوں کیلئے نماز عید سے پہلے ان کو ذبح کرنا جائز نہیں ۔
سوال : اگر ان میں سے کوئی نماز عید سے پہلے ذبح کرے تو کیا کرے؟
جواب : قربانی کو لوٹائے۔
سوال : وہ بستیوں والے جونماز عید پڑھتے ہیں اگر فجر یعنی صبح صادق کے طلوع کے بعد ذبح کریں تو کیا یہ ان کیلئے جائز ہے؟
جواب : جی ہاں جائز ہے۔
سوال : کیا نحرکا دن یعنی دس زوالحجہ قربانی کیلئے مختص ہے یا اس کے وقت میں وسعت ہے؟
جواب : نحرکے دن میں اور اس کے بعد دو دنوں میں قربانی کو ذبح کرنا جائز ہے۔ پس جب بارہویں تاریخ کو آفتاب غروب ہوجائے اور اس کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور ان دنوں میں سے افضل دن ان میں سے پہلا دن پھر ان میں سے درمیانہ دن پھر ان میں سے آخری دن ہے۔
سوال : اگر ان دو دنوں کے درمیان میں موجود دو راتوں میں سے کسی رات میں ذبح کرے تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب : جی ہاں یہ جائز ہے لیکن اس احتمال کی وجہ سے مکروہ ہے کہ تاریکی میں بعض رگیں نہ کٹیں۔
سوال : اس قربانی کو بیان کیجئے جو جائز نہیں؟
جواب : اندھی ، کانی اور اس لنگڑی کی قربانی نہ کی جائے جو قربان گاہ تک نہیں چل سکتی اور اس عجفاء یعنی لاغر کی قربانی نہ کی جائے جس کی ہڈی میں گودا نہیں اور کان اور دم کٹی کی قربانی نہ کی جائے اور اسکی قربانی کی نہ جائے جس کے کان یا جس کے دم کا اکثر حصہ ضائع ہوچکا ہے۔
سوال : جب کان اور دم کا اکثر حصہ باقی رہ گیا ہو تو اس کا حکم کیا ہے؟
جواب : قربانی میں اس کا ذبح کرنا جائز ہے۔
سوال : کیا جائز ہے کہ بے سینگ، خصی، دیوانی اور خارش زدہ کی قربانی کی جائے؟
جواب : قربانی میں ان تینوں بلکہ چاروں کو ذبح کرنا جائز ہے۔
سوال : کون سا جانور کہ قربانی میں اس کو ذبح کرنا جائز ہے؟
جواب : وہ جانور جس کو ذبح کرنے سے قربانی ادا ہوجاتی ہے وہ صرف اونٹ گائے اور بکری ہے اور ان کے بغیر جائز نہیں اور ان سب میں ثنی یا زائد عمر کا کفایت کرتا ہے مگر دنبہ کیونکہ اس میں سے جزع کفایت کرتا ہے اور بکری اپنی تینوں قسموں کے ساتھ جائز ہے۔
سوال : کیا قربانی کے گوشت میں سے کھائے اور وقت ضرورت کیلئے چھپا رکھے؟
جواب : قربانی کے گوشتوں میں سے کھائے امیروں اور غریبوں کو کھلائے اور وقت ضرورت کیلئے چھپا رکھے اور مستحب ہے کہ صدقہ کو تہائی سے کم نہ کرے۔
سوال : قربانی کی کھال کے ساتھ کیا کیا جائے؟
جواب : اسے صدقہ کردیا جائے یا اس سے ایسا آلہ بنالیا جائے جو گھر میں استعمال کیا جائے جیسے چھلنی ، مشک اور ان جیسی کوئی شے جیسے پوستین ، دسترخوان وغیرہ۔
سوال : کیا اپنی قربانی کو خود ذبح کرے یا اس کیلئے جائز ہے کہ اپنے غیر کو وکیل بنائے؟
جواب : افضل یہ ہے کہ خود ذبح کرے اگر اچھی طرح سے ذبح کرسکے اور اس کا غیر اس کے حکم سے کرے جائز ہے۔
سوال : اگر کتابی اسکی قربانی کو اس کے حکم سے کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اس سے واجب کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گا۔
سوال : دو شخص کہ ہر ایک نے اپنی قربانی کیلئے ایک بکری خریدی پس دونوں نے غلطی کی اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کی قربانی کی ذبح کردی تو کیا یہ عمل ان دونوں کی قربانی سے کفایت کرے گا؟
جواب : جی ہاں ان دونوں میں سے ہر ایک کی قربانی کی کفایت کرے گا اور ان پر ضمان نہیں ہے۔
متفرق مسائل
(١)
مستحب ہے کہ ذبح کرنے والے اپنی چھری کو تیز کرے۔
(٢)
جو چھری کو حرام مغز تک پہنچادے یا سر کاٹ دے(تو) یہ اس کے لئے مکروہ ہے اور اس کا ذبیحہ کھایا جائے۔
(٣)
اونٹ میں مستحب نحر ہے اور اگر اسے ذبح کرے جائز ہے اور مکروہ ہے اور گاۓ اور بکری میں مستحب ذبح ہے پس اگر وہ ان دونوں کا نحر کرے تو جائز اور مکروہ ہے۔
(۴)
جب ایسے (جانور) کو شرعی طور پر ذبح کرے جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا تو اس کی کھال اور اس کا گوشت پاک ہوگئے اگرچہ اس کا کھانا جائز نہیں اور آدمی اور سور کی کھال پاک نہیں ہوتی کیونکہ دباغت اور ذکاة ان دونوں میں کام نہیں کرتے۔
جس (جانور) کو کھانا حلال ہے اور جس (جانور) کو (کھانا) حلال نہیں
سوال : کیا ایسا جانور ہے جس کو کھانا حلال نہیں؟
جواب : درندوں میں سے ہر کچلی دار (درندے) کو کھانا اور پرندوں میں سے پنچہ دار (پرندے) کو کھانا حلال نہیں اور پالتو گدھوں اور خچروں کا گوشت کھانا جائز نہیں جیسا کہ بجو ، گوہ اور تمام کیڑوں مکوڑوں کو کھانا جائز نہیں۔
سوال : کوے کے بارے میں حضرت ابو حنیفہ ؓ کا قول کیا ہے؟
جواب : کھیتی کے کوے کو کھانے میں کوئی حرج نہیں اور اٙبْقٙعْ (کوا) نہ کھایا جائے جو مرداروں کو کھاتا ہے۔
سوال : گھوڑے کے گوشت کے کھانے میں حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا قول کیا ہے؟
جواب : اس کا گوشت حلال ہے اس کو کھانا مکروہ ہے تاکہ جہاد کا آلہ کم نہ ہوجاے۔
سوال : خرگوش کے گوشت کا حکم کیا ہے؟
جواب : اس کو کھانے میں کوئی حرج نہیں۔
سوال : کیا ٹڈی کا کھانا جائز ہے؟
جواب : اس کا کھانا حلال ہے اور اس کے لئے ذبح نہیں۔
سوال : حلال ہونے اور حرام ہونے کی حیثیت سے سمندر کے جانور کا حکم کیا ہے؟
جواب : پانی کے جانور میں سے مچھلی کے سوا حلال نہیں اور (مچھلی) میں سے وہ مکروہ ہے جو اپنی موت سے مر جائے اور پانی پر آجاے اور مچھلی میں سے جِرِّیْث (مچھلی) اور مار ماہی کو کھانے میں کوئی حرج نہیں۔
ذبح کرنے کا بیان
سوال : ذبح کیا ہے؟ اور کس شرط کے ساتھ ذبیحہ مسلمان کے لئے حلال ہوتا ہے؟
جواب : یہ لٙبّہْ (سینے پر ہار پڑنے کی جگہ) اور دونوں جبڑوں کے درمیان(موجود) رگوں کو کاٹنا ہے اور ذبیحہ کے حلال ہونے کے لئے شرط لازم کی جاتی ہے کہ جانور مٙاُْکوْل اللّٙحم ہو اور یہ کہ ذبح کرنے والا مسلمان یہ کتابی ہو اور یہ کہ ذبح کرنے والا ذبح کہ وقت اللّه تعالیٰ کا نام لے اور اس کا نام زکاة رکھا جاتا ہے۔
سوال : ان رگوں کو بیان کیجیے جو ذبح کے وقت کاٹی جاتی ہیں؟
جواب : وہ رگیں جو ذبح میں کاٹی جاتی ہیں چار ہیں
حلْقوْم
( سانس کی نالی)
مٙرِی
(کھانے پینے کی نالی)
اور وٙدٙجٙان (خون کی دو نالیاں)
پس جب وہ ان رگوں کو کاٹ دے تو کھانا حلال ہوگیا اور اگر ان میں سے اکثر (رگوں) کو کاٹ دے تب (بھی) حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللّه تعالیٰ کے نزدیک اسی طرح کا حکم ہے اور (صاحبین) رحم اللّه تعالی فرماتے ہیں کہ حلقوم مری اور ودجان (یعنی خون کے دونوں نالیوں میں سے ایک کا کاٹنا ضروری ہے۔
سوال : اگر ذبح کرنے والا ذبح کے وقت تسمیہ چھوڑ دے (تو) اس کے ذبیحہ کا کیا حکم ہے؟
جواب : اگر اسے جان بوجھ کر چھوڑ دے تو اس کا ذبیحہ مردار ہے نہ کھایا جائے اور اگر اسے بھول کر چھوڑ دے تو اسے کھایا جائے۔
سوال : کیا صرف چھری کے ساتھ ذبح کرنا متعین ہے ؟
جواب : چھری کے ساتھ ذبح کرنا متعین نہیں پس اگر بانس کے چھلکے اور دھاری دار پتھر سے اور ہر ایسی شے سے ذبح کرے جو خون کو بہا دے تو ذبح حاصل ہوجاے گا مگر (منہ میں) برقرار دانت اور (انگلی میں) برقرار ناخن ( کہ ان سے ذبح جائز نہیں
سوال : بکری یا گاۓ یا اونٹ کو ذبح کیا پس اس کے پیٹ میں مردہ جٙنِیْن پایا (تو) اس جٙنِیْن کا حکم کیا ہے ؟
جواب : یہ مردہ جٙنیْن نہ کھایا جائے( جٙنیْن) کے بال نکلے ہوں یا بال نہ نکلے ہوں پس اگر وہ زندہ نکلے (تو ) اسے ذبح کیا جائے اور کھایا جائے اور اگر ذبح سے پہلے مر جائے (تو) نہ کھایا جائے ۔
سوال : اگر بکری کو اس کی گدی ( کی جانب) سے ذبح کرے (تو) کیا اس کو کھانا جائز ہے؟
جواب : اگر جانور رگوں کے کاٹنے تک زندہ ہے (تو) اس کو کھانا جائز ہے لیکن یہ عمل مکروہ ہے اور اگر رگوں کے کاٹنے سے پہلے مر جائے تو یہ مردار ہے نہ کھایا جائے۔
سوال : شکار کے ذبح کا حکم کیا ہے (جو) مانوس ہوجاے اور مانوس جانور (کے ذبح) کا حکم (کیا) ہے (جو) وحشی ہوجاے؟
جواب : جو شکار مانوس ہوگیا تو اس کی زکاة ذبح ہے اور جو چوپایہ وحشی ہوجاے تو اس کی ذکاة عٙقْر یعنی زخمی کرنا ہے اور اس کا نام اضطراری ذبح رکھا جاتا ہے۔
سوال : مسلمان اور کتابی کے سوا کے ذبیحہ کا حکم کیا ہے؟
جواب : ان دونوں کے سوا کا ذبیحہ نہ کھایا جائے پس اگر مرتد یا آتش پرست یا بت پرست ذبح کرے تو اس کا کھانا حلال نہیں جس کو انہوں نے ذبح گیا اگر ذبح کے وقت اللہ تعالی کا نام لیں۔
سوال : محرم کے ذبیحہ کا حکم کیا ہے؟
جواب : جب محرم شکار کو ذبح کرے تو اس کا ذبیحہ مردار ہے اس کو کھانا حلال نہیں اور ہم اس (مسُلہ)کو کتاب الحج میں ذکر کر چکے اور وہ گائے یا بکری یا مرغی کو ذبح کرے یا اونٹی کو ذبح کرے تو ان سب کو کھانا جائز ہے۔
Sight Of Right
No comments: